اس سورۂ مبارکہ میں انکارِ قیامت و آخرت کا جو تیسرا اہم سبب بیان کیا گیا ہے وہ تکبر ہے. ارشاد فرمایا گیا: 

فَلَا صَدَّقَ وَ لَا صَلّٰی ﴿ۙ۳۱﴾وَ لٰکِنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ۙ۳۲﴾ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ یَتَمَطّٰی ﴿ؕ۳۳﴾ 
’’پس اس نے نہ تصدیق کی اور نہ نماز ادا کی. بلکہ جھٹلایا اور روگردانی کی. پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چل دیا‘‘.

یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ تابعین کرامؒ میں سے جن حضرات کو تفسیر قرآن سے خصوصی شغف تھا‘ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ الفاظ عام ہیں اور ان میں ایک عام متکبر انسان کی نقشہ کشی کی گئی ہے‘ لیکن یہاں معین طو رپر ابوجہل مراد ہے. یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ ابوجہل کے اعراض و انکار اور کفر و تکذیب کا سب سے بڑا سبب تکبر تھا. وہ نبی اکرم کے سامنے نیچا ہونے کے لیے تیار نہیں تھا. اسی لیے اس نے تصدیق نہیں کی. 
’’فَلَا صَدَّقَ‘‘ میں اس کی اسی روش کا ذکر ہے. اس لیے کہ اگر وہ رسول اللہ کی تصدیق کرتا جو خبر دے رہے تھے وقوعِ قیامت کی اور جو مدّعی تھے اللہ کے نبی اور رسول ہونے کے ‘ تو آپؐ ‘کی تصدیق کے لازمی معنی یہ ہوتے کہ وہ آپؐ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتا اور آپؐ ‘کی اطاعتِ کُلی قبول کرتا ہے‘ اور اس کے لیے اس کی متکبرانہ طبیعت آمادہ نہیں تھی. اسی طرح جو شخص نماز پڑھتا ہے وہ ہمہ تن اللہ کے سامنے جھکتا ہے‘ جس کا نقطۂ آغاز ہے ادب کے ساتھ جھک کر کھڑے ہونا‘ اور پھر درمیانی مقام ہے حالت رکوع ‘ اور اس کی انتہا ہے حالت سجدہ. اب بہت سے انسان اتنے سرکش اور متمرد ہوتے ہیں کہ ان کی اکڑی ہوئی گردنیں اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں. الغرض تصدیق اور نماز کی راہ میں رکاوٹ اور انکار و تکذیب پر آمادہ کرنے والی اہم چیز ہے تکبر و تمرد‘ جس کا نقشہ کھینچ دیا گیا ان الفاظِ مبارکہ سے کہ : ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ یَتَمَطّٰی ﴿ؕ۳۳﴾ ’’پھر وہ چل دیا اپنے گھر والوں کی جانب اکڑتا اور اینٹھتا ہوا!‘‘