اس آیۂ مبارکہ میں جمع قرآن کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کی جس ذمہ داری کا ذکر ہے اس کا اوّلین مصداق تو جمیع مفسرین و محققین کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نبی اکرم کے سینہ ٔ مبارک میں جمع فرما دیا تھا. یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ضمن میں کسی کو کوئی اختلاف یا اشتباہ ہو ہی نہیں سکتا. البتہ جمع قرآن کے دوسرے مرحلے کے ضمن میں لاعلمی کے باعث بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں مختلف النوع شبہات پائے جاتے ہیں.

جمع قرآن کا یہ مرحلۂ ثانی قرآن مجید کو ایک کتابی شکل میں جمع کرنے کا تھا جو بالاجماع نبی اکرم کی وفات کے بعد طے پایا‘ اس لیے کہ اس پر اتفاق ہے کہ 
’’مَابَیْنَ الدَّفَّـتَـیْنِ‘‘ (جلد کے دو گتوں کے درمیان) قرآن کا ایک کتاب کی صورت میں جمع ہو جانا آنحضور کی حیاتِ دُنیوی کے دوران نہیں ہوا تھا. اُس وقت تک قرآن جس طرح نبی اکرم کے سینہ ٔ مبارک میں جمع تھا اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک بڑی تعداد کے بھی صرف سینوں میں محفوظ تھا. اس مرحلۂ ثانی کے بارے میں ایک بالکل غلط اور بے بنیاد بات تو وہ ہے جو خلیفۂ ثالث ذوالنورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ قافیہ کی مناسبت سے ’’جَامِعُ آیاتِ الْقُرْآنِ‘‘ کے الفاظ چسپاں کر دینے کے باعث بہت بڑے حلقے میں پھیل گئی ہے‘جس سے ذہنوں میں خواہ مخواہ یہ وسوسہ پیدا ہو جاتا ہے کہ شاید قرآن کتابی صورت میں نبی اکرم کے وصال کے کم از کم پندرہ بیس سال بعد جمع ہوا‘ اور یہ وسوسہ منطقی طور پر بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دینے کا باعث بن جاتا ہے‘ جبکہ واقعہ اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ مصحف کی صورت میں قرآن مجید کے جمع ہوجانے کا مرحلہ تو دورِ خلافت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی میں‘ گویا نبی اکرم کی وفات کے بعد زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سال کے اندر اندر‘ طے پا گیا تھا. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تو فی الواقع اُمت کو قرآن کے ایک رسم الخط پر جمع کیا تھا. گویا اگر قافیہ کی رعایت ہی ملحوظ رہے تب بھی اُن کی شان میں ’’جَامِعُ الْاُمَّۃِ عَلَی الْقُرْآنِ‘‘ کے الفاظ زیادہ موزوں بھی ہیں اور مطابقِ واقعہ بھی!