اس ضمن میں مغالطہ کا سبب یہ ظاہر و باہر اور متفق علیہ حقیقت ہے کہ قرآن کی ترتیب نزولی مصحف کی ترتیب سے بالکل مختلف تھی. لیکن اگر ترتیب ِ نزولی اور ترتیبِ مصحف کے فرق کی حکمت کو سمجھ لیا جائے تو شیطان کو کسی وسوسہ اندازی کا موقع نہیں مل‘سکتا.
ہمارا ایمان ہے کہ قرآن اللہ کا وہ کلامِ قدیم ہے جو ازل سے ’’لوحِ محفوظ‘‘ (البروج:۲۲) یا ’’اُمّ الکتاب‘‘ (الزخرف:۴) یا ’’کتابِ مکنون‘‘ (الواقعہ:۷۸) میں درج ہے‘ اور یہ وہ ابدی (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الحج‘ باب حجۃ النبیﷺ . ہدایت نامہ ہے جو تاقیامِ قیامت تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کفایت کرے گا. لیکن اس کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے اس شعر کے مطابق کہ ؎ ’’نوعِ اِنساں را پیامِ آخریں
حامل اُو رحمۃٌ لّلعالمیں!‘‘
اس کا نزول نبی اکرمﷺ پر ایک خاص زمانے میں اور مخصوص حالات کے تناظر میں ہوا. اور یہ قرآن کا عظیم اعجاز ہے کہ اس کی آیاتِ بینات ترتیب کے ذرا سے فرق کے ساتھ نبی اکرمﷺ کی حیاتِ دُنیوی کے دوران بدلتے ہوئے حالات و واقعات پر اتنے معجزانہ طور پر چسپاں ہوتی چلی گئیں جیسا کہ وہ خاص اُن ہی حالات کے لیے نازل ہوئی ہوں‘ اور اس طرح آنحضورﷺ اور آپﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنی دعوت و تحریک کے جاں گسل حالات و واقعات اور مسائل و مشکلات کے ضمن میں بروقت ہدایت و رہنمائی ملتی چلی گئی‘ جس سے آپﷺ کے قلب مبارک کو بھی جماؤ اور ٹھہراؤ اور استقامت حاصل ہوتی چلی گئی اور آپﷺ کے صحابہؓ کے دلوں کو بھی سہارا ملتا رہا اور ان کی ڈھارس بندھی رہی. چنانچہ یہی بات ہے جو سورۃ الفرقان کی آیت ۳۲ میں بیان ہوئی ہے کہ:
وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ جُمۡلَۃً وَّاحِدَۃً ۚۛ کَذٰلِکَ ۚۛ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ وَ رَتَّلۡنٰہُ تَرۡتِیۡلًا ﴿۳۲﴾
’’اور کافروں نے کہا کہ ان (محمدﷺ )پر قرآن ایک ہی مرتبہ پورا کیوں نہ نازل کر دیا گیا؟ (اس کا جواب یہ ہے کہ) ہم نے یہ اس لیے کیا کہ اس کے ذریعے (اے نبیؐ !) آپ کے دل کو جماؤ عطا فرما دیں‘ اورہم نے اسے پڑھوایا تھوڑا تھوڑا کر کے!‘‘
گویا ترتیب ِ نزولی کی اصل حکمت یہ تھی کہ رسول اللہﷺ کی دعوت جن جن مراحل سے گذر رہی ہے اور آپؐ ‘کی جدوجہدکو جن جن موانع سے سابقہ پیش آ رہا ہے ان کی مناسبت سے آیاتِ قرآنیہ نازل ہوتی چلی جائیں تاکہ آپؐ ‘ کو بروقت رہنمائی ملے ‘اور ہر مرحلے پر جو اعتراضات آپؐ پر کیے جائیں‘ یا جو سوالات و اشکالات آپؐ کے سامنے پیش کیے جائیں ان سب کا حل اور جواب ساتھ کے ساتھ ملتا چلا جائے‘ جبکہ ترتیبِ مصحف وقتی حالات کے تابع نہیں ہے‘ بلکہ لوحِ محفوظ‘ یا کتابِ مکنون‘ یا اُمّ الکتاب کے عین مطابق ہے اور اس کا اصل ہدف ابدی ہدایت ہے. یہی وجہ ہے کہ آیات اور سورتوں کی اس ازلی اور ابدی ترتیب میں غور و فکر کرنے والوں کو عظیم حکمتوں اور علوم و معارف کے نہ ختم ہونے والے خزانوں کا سراغ ملتا ہے اور اس سے علم و حکمت قرآنی کے نئے نئے گوشے روشن ہوتے ہیں. چنانچہ یہی وہ ترتیب ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو نبی اکرمﷺ کے سینہ ٔ مبارکہ میں جمع فرمایا اور اسی کی پیروی اور پابندی کا آپؐ کے متبعین کو حکم دیا‘ اور یہی ترتیب اب ہمیشہ کے لیے دین میں حجت ہے!!
البتہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن مجید کو ایک کتاب کی شکل میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے دَورِ خلافت میں اُس وقت مرتب اور جمع کیا جب جنگِ یمامہ میں بہت سے حفاظ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہو گئے اور اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں اس طرح نوعِ انسانی قرآن سے محروم نہ ہو جائے. چنانچہ آن جنابؓ نے نبی اکرمﷺ کے زمانہ مبارک کے جملہ کاتبینِ وحی کو جمع کر کے اور حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کو اُن کا ناظم اور سربراہ بنا کر اس کمیٹی کے سپرد یہ کام کیا کہ قرآن مجید کو ایک کتاب کی شکل میں مرتب کر لیں. چنانچہ پورا قرآن کریم جو حفاظِ کرام کے سینوں میں محفوظ تھا اور جس کے بعض اجزاء اور مختلف سورتیں بعض صحابہؓ کے پاس تحریری شکل میں بھی موجود تھیں‘ ان سب کی مدد سے قرآن مجید کو ’’بَیْنَ الدَّفَّـتَیْنِ‘‘ یعنی جلد کے دو گتوں کے درمیان کتابی شکل میں جمع کر لیا گیا.البتہ اس کے پڑھنے میں اہل عرب کے مختلف لہجے تھے جیسے اردو زبان کے بھی مختلف لہجے ہیں‘ چنانچہ لکھنوی لہجہ اور ہے اور دہلی کا لہجہ اور‘ اسی طرح حیدر آبادی لہجہ جدا ہے اور بہاری لہجہ جدا‘اور ابتداءً لوگوں کی سہولت کے لیے انہیں قرآن مجید کو اپنے اپنے لہجوں میں پڑھنے کی اجاز ت تھی‘ لہذا مختلف لہجوں کا اثر قرآن کریم کی کتابت و قراء ت میں بھی آ رہا تھا.چنانچہ اُمت پر یہ احسانِ عظیم حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا ہے کہ آپؓ نے اپنے دور خلافت میں اُمت کو قرآن کے ایک رسم الخط پر جمع کیا . گویا آنجنابؓ ‘ قرآن کریم کو جمع کرنے والے نہیں ہیں ‘بلکہ اُمت کو قرآن کی ایک کتابت پر جمع کرنے والے ہیں.
الغرض سورۃ القیامۃ کی یہ دو آیات اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚۖ۱۷﴾فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚ۱۸﴾ ’’(اے نبیؐ !) یقیناہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کرنا بھی اور اس کا پڑھوانا بھی ‘ تو جب ہم اسے پڑھوائیں تو آپؐ اس کو اسی ترتیب سے پڑھیے.‘‘حفاظتِ متنِ قرآن اور جمع و ترتیبِ قرآن کے ضمن میں قرآن کا ذروۂ سنام ہیں.
اس کے بعدآیت ۱۹ میں فرمایا: ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ ﴿ؕ۱۹﴾ ’’پھر ہمارے ہی ذمے ہے اس کی تبیین (یعنی توضیح و تشریح). یہ بات بھی نہایت اہم ہے‘ او رجس طرح جمع قرآن کے دو مرحلے تھے اسی طرح اس کے بھی دو حصے ہیں‘ جن کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے. چنانچہ ایک حصہ تو یہ ہے کہ جب قرآن مجید میں نازل شدہ احکام کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں کچھ سوالات پیدا ہوتے تھے تو بعد میں توضیحی آیات نازل ہو جاتی تھیں. ایسی آیات بعض اوقات تو اُسی کے حکم کے ساتھ متصلاً درج کر دی گئی ہیں‘ بعض اوقات انہیں کسی قدرفصل کے ساتھ درج کیا گیا ہے‘ اور بعض اوقات سورۃ کے آخر میں شامل کر دیا گیا ہے. چنانچہ رمضان کے روزوں کے بارے میں تفصیلی احکام پر مشتمل آیت سورۃ البقرۃ کے اسی تیئیسویں رکوع کے آخر میں شامل کر دی گئی جس میں ابتدائی حکم درج ہے‘ جبکہ دوسری اور تیسری صورتوں کی نمایاں مثالیں سورۃ النساء میں موجود ہیں. ایسی توضیحی آیات کے ساتھ آپ اکثر دیکھیں گے کہ یہ الفاظ آتے ہیں : کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ ’’اسی طرح اللہ اپنی آیات کی تبیین (اور وضاحت) فرما دیتا ہے‘‘.
الغرض ایک تو تبیین قرآن یعنی قرآن مجید کی مزید تشریح و توضیح کی صورت یہ ہے کہ وہ خود قرآن ہی کے ذریعے ہو گئی. اس کے علاوہ اس کا ایک دوسرا نظام بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرمﷺ کا یہ فرضِ منصبی قرار دیا گیا کہ آپﷺ ‘قرآن مجید کی تشریح و توضیح اور تبیین فرمائیں. چنانچہ سورۃ النحل کی آیت ۴۴ میں فرمایا : وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ ’’اور(اے نبیﷺ !) ہم نے آپ پر الذکر (یعنی قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے وضاحت کریں اُس چیز کی جو اُن کی طرف نازل کی گئی ہے‘‘. گویا قرآن مجید کی توضیح و تبیین کی ایک صورت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت خصوصی یا وحیٔ خفی پر مبنی سنتِ رسولؐ کے ذریعے سامنے آئی. اس سلسلے میں کچھ کج فہم اور گم کردہ راہ لوگوں کا یہ اِشکال بالکل بے بنیاد ہے کہ اگر قرآن پر سنت رسولؐ کا اضافہ کیا جائے تو یہ قرآن کی توہین ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مکمل نہیں ہے اور وہ اپنی وضاحت کے لیے سنت کا محتاج ہے. معاذ اللہ‘ کوئی صاحبِ ایمان قرآن کے متعلق ہرگز یہ تصور اور خیال نہیں رکھتا کہ قرآن سنت کا محتاج ہے‘ البتہ تمام مسلمانوں کا اجماعی و متفق علیہ موقف یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو سمجھنے اور اس کی رہنمائی پر عمل پیرا ہونے کے لیے سنت رسولؐ کے محتاج ہیں. گویا یہ احتیاج ہماری ہے کہ ہم فہم قرآن اور عمل بالقرآن کے لیے نبی اکرمﷺ کے اقوال اور افعال مبارکہ کو اپنے سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ نبی اکرمﷺ نے قرآن مجید پر کس طرح عمل کر کے دکھایا ہے اور تعلیماتِ قرآن کو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے دائروں میں کس طرح بالفعل نافذ کیا اور اس طرح اس کا عملی نمونہ پیش فرمایا. اس لیے کہ اسی کے حوالے سے ہم قرآن مجید کو صحیح طور پر سمجھ بھی سکیں گے اور اس پر عمل بھی کر سکیں گے‘ اور سنت کی یہ تبیین بھی حکماً ہدایتِ قرآن ہی کا حصہ ہو گی‘ اس لیے بھی کہ اس تبیین قرآن کا حکم اللہ ہی نے آپؐ ‘کو دیا ہے اور اس لیے بھی کہ قرآن حکیم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے متعدد کاموں کو صراحتاً اپنی طرف منسوب فرمایا ہے‘ جس کی ایک نمایاں مثال سورۃ الانفال میں وارد ہوئی ہے کہ غزوۂ بدر میں نبی اکرمﷺ نے کنکریوں کی مٹھی بھر کر کفار کی طرف پھینکی تو اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ۚ (آیت ۱۷) ’’اور(اے نبیؐ !) جب آپؐ نے کنکریاں پھینکی تھیں تو آپؐ نے نہیں پھینکی تھیں ‘ بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں‘‘. مولانائے روم نے اسی بات کو یوں تعبیر کیا ہے: ؎
گفتۂ اُو گفتۂ اللہ بود
گرچہ از حلقومِ عبداللہ بود
الغرض‘ معانی و مطالب قرآن کی وضاحت کا ذمہ بھی ازروئے آیۂ مبارکہ اللہ نے خود لیا تھا‘جو کچھ تو خود قرآن حکیم کی توضیحی آیات کے ذریعے پورا ہوا اور اکثر و بیشتر سنتِ رسولﷺ کے ذریعے پورا ہوا. بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیمoo