سورۃ المؤمنون اور سورۃ المعارج کی روشنی میں


نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
فاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿۶﴾فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ ۚ﴿۷﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ ۙ﴿۸﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿۹﴾اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡوٰرِثُوۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾الَّذِیۡنَ یَرِثُوۡنَ الۡفِرۡدَوۡسَ ؕ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۱﴾ (المؤمنون) ..... صدق اللّٰہ العظیم 
’’کامیاب اور بامراد ہوئے اہل ایمان‘ جو اپنی نمازوں میں خشوع سے کام لیتے ہیں‘ اور جو بے کار اور بے مقصد باتوں سے احتراز کرتے ہیں‘ اور جو تزکیۂ نفس پر مسلسل کاربند رہتے ہیں‘ اور جو اپنی شرم گاہوں (یعنی اپنی شہوت) کی حفاظت کرتے ہیں‘ سوائے اپنی بیویوں یا باندیوں کے‘ لہذا (ان کے اس معاملے میں) ان پر کوئی ملامت نہیں ہے‘ بس جوکوئی اس سے تجاوز کرے گا تو وہی حد سے بڑھ جانے والے ہیں‘ اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی پابندی کرتے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں . یہی ہیں وہ لوگ جو وارث بنیں گے‘ جنہیں جنت الفردوس کی وراثت ملے گی ‘وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘.

یہ سورۃ المؤمنون کی ابتدائی گیارہ آیات ہیں‘ جن پر ہمارے اس منتخب نصاب کا دسواں سبق مشتمل ہے. اسی سبق سے اس منتخب نصاب کے تیسرے حصے کا بھی آغاز ہوتا ہے‘ جو قرآن حکیم کے چند ایسے منتخب مقامات پر مشتمل ہے جن میں اعمالِ صالحہ کی کسی قدر تفصیل بیان ہوئی ہے. یعنی انسانی زندگی کے عملی اور اخلاقی پہلو اُجاگر کیے گئے ہیں. اگرچہ اس سے قبل اس سلسلۂ درس میں اب تک ہونے والے تمام دروس میں بلااستثناء ایمان کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کے عملی اور اخلاقی پہلوؤں کا بھی ذکر ہوا ہے ‘ اور ایمان کے عملی تقاضے‘ ایمان کے عملی لوازم‘ ایمان کے عملی اور اخلاقی نتائج قریباً تمام اسباق میں ہمارے سامنے آتے رہے ہیں‘ لیکن اس حصے میں بنیادی طور پر ہماری توجہ اعمالِ صالحہ ہی کی بحث پر مرتکز رہے گی اور اس میں جو تدریج پیشِ نظر ہے اسے آپ پہلے ہی سے ذہن نشین فرما لیں. وہ یہ کہ سب سے پہلے ہم ایک فرد‘ ایک شخص اور ایک انسان کی سیرت و کردار میں جو اوصاف مطلوب ہیں‘ ان کے اعتبار سے قرآن مجید کے بعض مقامات کا مطالعہ کریں گے. گویا کہ ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ قرآن کا انسانِ مطلوب کیسا ہوتا ہے! جس کی نقشہ کشی علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں ’’مردِ مؤمن‘‘ کے حوالے سے کی ہے اس کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں! اس کی سیرت و کردار میں کون سے پہلو نمایاں ہوتے ہیں!

پھر یہ بحث ہمارے اس سلسلۂ سبق میں دو سطحوں پر آئے گی. ایک تو یہ کہ تعمیر ِسیرت کے لیے اساسات کون سی ہیں. یعنی وہ بنیادیںکون سی ہیں جن پر ایک اعلیٰ سیرت و کردار کی عمارت تعمیر ہو سکتی ہے. ظاہر بات ہے کہ ہر عمارت کی ایک بنیاد ہوتی ہے‘ اسی بنیاد پر وہ عمارت اٹھتی ہے اور اسی بنیاد کے مستحکم ہونے پر اس عمارت کے استحکام کا دار و مدار ہوتا ہے. لہذا تعمیر ذات یا تعمیر سیرت یا اگر علامہ اقبال کی اصطلاح مستعار لی جائے تو تعمیر خودی کے لیے قرآن مجید کیا لائحۂ عمل پیش کرتا ہے اور اس کی اساسات کیا ہیں! پھر ہم یہ دیکھیں گے کہ جب ان بنیادوں پر ایک انسانی شخصیت کی بتمام و کمال تعمیر ہوجاتی ہے تو اس کے امتیازی خدوخال کیا ہوتے ہیں! اس میں جو حسن اور جو دلکشی پیدا ہوتی ہے وہ کن اوصاف کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہے. مردِ مؤمن کے بارے میں علامہ اقبال کا ایک شعر ہے : ؎

کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مؤمن!
حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مؤمن

تو مؤمن کی شخصیت کی جو دل آویزی ہے وہ کون کون سی خصوصیات اور اس کے کون کون سے اوصاف پر مبنی ہے! پھر ہم یہ دیکھیں گے کہ جب ایک فرد سے آگے بڑھ کر ایک خاندان وجود میں آتا ہے تو خاندان اور عائلی زندگی کے سلسلہ میں قرآن مجید ہمیں کیا رہنمائی دیتا ہے اور اس کی عملی تشکیل کے لیے کیا اصول دیتاہے! قرآن مجید کے نزدیک ایک اچھا خاندان کون سا ہے! اس کے خصائص و اوصاف کیا ہیں!

اس سے ہم جب آگے بڑھیں گے تو دیکھیں گے کہ خاندانوں کے مجموعے سے ایک معاشرہ وجود میں آتا ہے. اس انسانی معاشرے میں کن اقدار و اوصاف کو قرآن مجید چاہتا ہے کہ وہ نافذ اور رائج ہوں! قرآن مجید کو کن اقدار 
(values) کی ترویج ایک معاشرے میں اصلاً مطلوب ہے! اور ازروئے قرآن وہ کون سی سماجی خرابیاں اور برائیاں (social evils) ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ انسانی معاشرے سے دور رہیں اور اُن کا استیصال کیا جائے. پھر اس عمل صالح کی بحث کی بلند ترین سطح یہ ہو گی کہ ملت و ریاست کی سطح پر‘ حکومت اور نظامِ حکومت کی سطح پر قرآن مجید ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے!

اس ضمن میں یہ ہمارا پہلا سبق ہے‘ جس میں دراصل وہ اساسات بیان ہوئی ہیں اور وہ بنیادیں معین کی گئی ہیں جن پر ایک مردِ مؤمن کی شخصیت کی تعمیر ہو سکتی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ انسانی سیرت و کردار کی پختگی کے لیے جو لوازم ہیں‘ ان کا تعین کیا گیا ہے. علامہ اقبال کا یہ شعر آپ کے ذہن میں ہوگا کہ : ؎

خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اِک انبار تو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیرِ بے زنہار تو

اس سبق میں ہمارے سامنے یہ بات واضح ہو کر آئے گی کہ انسانی سیرت و کردار کی پختگی اور استحکام کے لیے کون سی محنت ضروری ہے‘ اور وہ کون سی مشقت اور ریاضت ہے جس کی طرف قرآن مجید رہنمائی کرتا ہے!