قرآن حکیم کا یہ اسلوب ہے کہ اس میں جو مضامین بتکرار و اعادہ یعنی بار بار آئیں گے گویا ان کی اہمیت مسلّم ہوتی چلی جائے گی. چنانچہ انتیسویں (۲۹) پارے میں سورۃ المعارج کی آیات ۱۹ تا ۳۵ میں بھی تعمیر سیرت کے یہی لوازم بیان ہوئے ہیں. ان دونوں مقامات کے تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کس قدر مشابہت ہے. سورۃ المعارج میں فرمایا گیا : اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا ﴿ۙ۱۹﴾ ’’یقینا انسان تھڑدلا (اور کم ہمت) پیدا ہوا ہے‘‘. اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا ﴿ۙ۲۰﴾ ’’جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو جزع فزع کرتا ہے‘‘. فریاد کرتا ہے‘ نالہ و شیون کرتا ہے. وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا ﴿ۙ۲۱﴾ ’’اورجب اس کو خیر ملتا ہے (مال و دولت ہاتھ آتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نعمتیں دیتا ہے) تو( اُن) کو روک روک کر رکھتا ہے‘‘.سینت سینت کر رکھتا ہے‘ دوسروں تک انہیں پہنچنے نہیں دیتا. یہ دراصل انسان کی سیرت کی اس خامی کی طرف اشارہ جس سے انسان کو رُستگاری اور آزادی دلانا اس پروگرام کا مقصد ہے.
آگے فرمایا: اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ۲۲﴾ ’’سوائے اُن کے جو نماز پڑھنے والے (نمازکے خوگر اور عادی ہوگئے) ہوں‘‘.یہاں کی اتنی اہمیت سامنے آئی کہ وہاں جو قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ کے الفاظ وارد ہوئے تھے ان کی بجائے یہاں لفظ ’’مُصَلِّیۡنَ ‘‘ آیا. گویا مؤمن اور نمازی مترادف اور ہم معنی الفاظ ہیں .آگے فرمایا: الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ دَآئِمُوۡنَ ﴿۪ۙ۲۳﴾ ’’جو اپنی نمازوں پر مداومت کرنے والے ہیں‘‘ ہمیشگی اختیار کرتے ہیں.
آگے فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ ﴿۪ۙ۲۴﴾لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ ﴿۪ۙ۲۵﴾ ’’اور وہ لوگ جن کے اموال میں معین اور معلوم حق ہے مانگنے والوں کے لیے بھی اور ان لوگوں کے لیے بھی جو(کسی سبب سے) محروم ہو جائیں‘‘. یہ گویا سورۃ المؤمنون کے الفاظ: وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾ کے مترادف الفاظ ہیں.
آگے فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ یُصَدِّقُوۡنَ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿۪ۙ۲۶﴾ ’’اور وہ لوگ جو روزِ جزا (یوم قیامت) کی تصدیق کرتے ہیں‘‘. وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مِّنۡ عَذَابِ رَبِّہِمۡ مُّشۡفِقُوۡنَ ﴿ۚ۲۷﴾ ’’اور وہ لوگ جو اپنے ربّ کے عذاب سے لرزاں وترساں رہتے ہیں (ڈرتے رہتے ہیں)‘‘ اِنَّ عَذَابَ رَبِّہِمۡ غَیۡرُ مَاۡمُوۡنٍ ﴿۲۸﴾ ’’اور واقعۃً اُن کے رب کاعذاب ایسی ہی چیز ہے جس سے نچنت نہیں ہوا جا سکتا‘‘.جس سے بے خوف ہونا ممکن نہیں ہے. ان تین آیات کے بارے میں مَیں عرض کروں گا کہ ان کا تعلق ’’اِعراض عن اللَّغو‘‘ سے ہے. یہ ایمان بالآخرت ہے جس کے نتیجہ میں دنیا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہو جاتاہے‘ اور اس کا اصل ہے ’’اِعراض عن اللَّغو‘‘ یعنی بیکار باتوں سے دامن بچانا‘ پہلو تہی کرنا. اس کی قدرے وضاحت اِن شاء اللہ اگلے صفحات میں آئے گی.
اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ بعینہٖ وہ الفاظ دوبارہ آ رہے ہیں جو سورۃ المؤمنون (آیات ۵تا۸) میں آئے تھے : وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ﴿ۙ۲۹﴾اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ﴿ۚ۳۰﴾فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ ﴿ۚ۳۱﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ ﴿۪ۙ۳۲﴾البتہ یہاں ایک چیز کا اضافہ کیا گیا‘اور وہ یہ کہ امانت اور عہد کے ضمن میں شہادت پر قائم رہنا‘ گواہی پر قائم رہنا. چنانچہ فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِشَہٰدٰتِہِمۡ قَآئِمُوۡنَ ﴿۪ۙ۳۳﴾ ’’اور جو اپنی گواہیوں پر قائم رہتے ہیں‘‘. آخر میں وہی نماز کا ذکر پھر آیا: وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ﴿ؕ۳۴﴾ جیسے وہاں اوّل و آخر نماز‘ ویسے بھی یہاں اوّل و آخر نماز.
آگے فرمایا: اُولٰٓئِکَ فِیۡ جَنّٰتٍ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿ؕ٪۳۵﴾ ’’یہ ہیں وہ لوگ جو جنتوں میں ہوں گے اور وہاں ان کا اکرام و اعزاز کے ساتھ ‘‘. سورۃ المؤمنون میں فرمایا تھا: اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡوٰرِثُوۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾الَّذِیۡنَ یَرِثُوۡنَ الۡفِرۡدَوۡسَ ؕ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۱﴾ یہاں اِن الفاظ میں بشارت دی گئی : اُولٰٓئِکَ فِیۡ جَنّٰتٍ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿ؕ٪۳۵﴾