سورۃ المؤمنون کی پہلی آیت قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ میں ایک اصطلاح وارد ہوئی ہے. ’’فلح‘‘.یہ لفظ قرآن مجید میں متعدد بار آیا ہے‘ مثلا: اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿﴾ اور سورۃ المعارج کا جو حصہ سورۃ المؤمنون کی ابتدائی گیارہ آیات کے مشابہ ہے‘ اس کے آغاز میں الفا ظ آئے کہ : اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا ﴿ۙ۱۹﴾ ’’بے شک انسان تھڑدلا (اور کم ہمت) پیدا کیا گیا ہے‘‘. اس کی مزید وضاحت ہوئی : اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا ﴿ۙ۲۰﴾ ’’جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو جزع فزع کرتا ہے‘‘نالہ و شیون سے کام لیتا ہے‘ فریاد کرتا ہے‘ چیختا چلاتا ہے. وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا ﴿ۙ۲۱﴾ ’’اور جب اسے خیر (یا بھلائی یا دولت) ملتی ہے تو اسے سینت سینت کر رکھتا ہے‘‘. سمیٹ سمیٹ کر اپنے ہی پاس رکھنے کی کوشش کرتا ہے. اپنے دوسرے ابناء نوع کو اس میں حصہ دار بنانے کی ہمت نہیں رکھتا.
چنانچہ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ انسان کی شخصیت میں ضعف اور کمزوری کے وہ کون کون سے پہلو ہیں جن کی نشاندہی قرآن مجید نے کی ہے اور جن کے ازالہ کے لیے انسان کو محنت و مشقت اور ریاضت کی ضرورت ہے. قرآن مجید کے مطالعہ سے ایک بڑی عجیب حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک طرف قرآن مجید انسان کی عظمت کونمایاں (emphasise) کرتا ہے کہ یہ بہت اعلیٰ خلقت کا حامل ہے. دوسری طرف قرآن مجید انسانی خلقت کے بعض خلاء اور اس کی بعض کمزوریوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے. ایک طرف بلندیاں ہیں اور ساتھ ہی پستیاں ہیں. جیسے سورۃ التّین میں فرمایا گیا: لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾ ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا‘ پھر اسے اُلٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا‘‘. اس کی بہت خوبصورتی سے شیخ سعدی رحمہ اللہ علیہ نے ترجمانی کی ہے. وہ کہتے ہیں: ؎
آدمی زادہ طرفہ معجون است
از فرشتہ سرشتہ و ز حیوان
یہ انسان‘ آدمی زادہ ‘ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد عجیب مرکب وجود کا حامل ہے. یہ گویا چوں چوں کا مربہ ہے. اس میں ایک جانب بڑی بلندیاں ہیں‘ وہ بلندیاں جو اسے ملائکہ کا ہم پلہ ہی نہیں مسجود بناتی ہیں. دوسری طرف اس میں ایسی پستیاں ہیں کہ یہ خالص حیوانات کی سطح پر بھی گر جاتا ہے. پس اس میں ملکوتیت اور حیوانیت کے اوصاف بیک وقت موجود ہیں.اگر ہم خود کچھ دروں بینی کی عادت ڈالیں اور اپنے اندر بھی جھانکا کریں تو ہمیں خود محسوس ہو گا کہ یہ دو متضاد تقاضے ہمارے اندر موجود ہیں. خیر و شر کے عواطف و میلانات بیک وقت ہمیں اپنے باطن میں محسوس ہوتے ہیں. ایک طرف ہمارے اندر نیکی‘ بھلائی‘ علو ہمت اور کردار کی بلندی کی طرف رجحان بھی موجود ہے اور دوسری طرف پستی کی طرف میلان بھی خود ہمارے اندر موجود ہے. اسے ہم تعبیر کرتے ہیں کشمکش خیر و شر سے‘ جس کے داعیات اور عواطف و میلانات ہمارے اپنے اندر موجودہیں. اسی کو علامہ اقبال نے ایک مقام پر ’’معرکۂ روح و بدن‘‘ سے تعبیر کیا ہے. وہ کہتے ہیں ؎ دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش!
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیٔ مؤمن پہ بھروسہ!
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
فرائڈ ایک بہت بڑا ماہر نفسیات شمار ہوتا ہے. اگرچہ اس کے بہت سے نظریات گمراہ کن بھی ہیں‘ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے انسانی نفسیات کا مطالعہ اور مشاہدہ بہت گہرائی میں اتر کر کیا ہے. اس کے یہاں انسانی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے ضمن میں جو اصطلاحات ملتی ہیں ان میں ایک طرف "IDD" اور "LIBIDO" ہے‘ یعنی حیوانی جبلتیں اور حیوانی تقاضے (animal instincts)‘ اور دوسری طرف "EGO" اور "SUPER EGO" یعنی ’’انا ‘‘اور ’’انائے کبیر‘‘ بھی موجود ہے. یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کو رفعت اور اخلاق کی بلند منزلوں کی طرف کھینچتی ہیں.
قرآن مجید نے بھی ’’نفس‘‘ کو کہیں تو ایک وحدت کی حیثیت سے لیا ہے تو وہ پستی کا مظہرہے اور اس کے مقابلہ میں قلب و روح کو بلندی اور رفعت کا مظہر قرار دیا ہے.کہیں ایسا ہوا ہے کہ نفس ہی کو ایک جامع اصطلاح کے طور پر لے کر اس کی تین حالتوں اور کیفیات کی نشاندہی کی گئی ہے.ان میں سے پہلی ’’نفسِ امّارہ‘‘ ہے ‘یعنی اس میں برائی‘ بے حیائی‘ شہوت‘ خواہشات اور حیوانی جبلتوں ہی کی طرف سارا میلان اور رجحان ہے. چنانچہ تیرہویں پارے کی پہلی آیت میں حضرت یوسف علیہ السلام کے الفاظ نقل ہوئے ہیں: وَ مَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (یوسف:۵۳) ’’یقینا میں کچھ اپنے نفس کی براء ت نہیں کر رہا ہوں‘ نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے‘‘.
لیکن قرآن مجید دوسری کیفیت ’’نفسِ لوّامہ‘‘ کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اللہ نے اس کی قسم کھائی ہے اور اسے وقوعِ قیامت پر بطورِ شہادت پیش کیا ہے جس کا ہم سورۃ القیامہ میں مطالعہ کر چکے ہیں: وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾ چنانچہ برائی پر ملامت کرنے والی چیز بھی انسان کے اپنے اندر موجود ہے.
پھر ’’نفس مطمئنہ‘‘ ایک بلند ترین کیفیت ہے. جب آدمی زادہ حیوانیت سے آزادی اور رُستگاری حاصل کر کے انسانیت کے بلند مقام پر متمکن ہو جائے‘ قائم ہو جائے‘ جم جائے‘ تو یہ ہے نفس مطمئنہ‘ جس کا ذکر سورۃ الفجر کے آخر میں ہے : یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾ ’’اے نفس مطمئن! چل اپنے ربّ کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجامِ نیک سے) خوش (اور اپنے ربّ کے نزدیک) پسندیدہ ہے‘‘. لہذا یہ ہیں وہ متضاد میلانات و رجحانات جو انسان کے اندر موجود ہیں.
مزید توجہ کیجیے. قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان مسجود ملائک ہے. قرآن مجید میں سات مرتبہ اس کا ذکر ہے کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو. مزید برآں سورۂ بنی اسرائیل میں ارشا د ہے کہ : وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا ﴿٪۷۰﴾ ’’اورہم نے بنی آدم کو بڑی عزت بخشی ہے ‘اور ہم اسے بحر و بر میں اٹھائے پھرتے ہیں‘ اور اسے پاکیزہ رزق دیا ہے اور ہم نے جو کچھ بنایا ہے اس میں سے بہتوں پر اسے فضیلت عطا کی ہے‘‘. یہ بھی اس کا اعزا ز و اکرام ہے.قرآن یہ بھی کہتا ہے : لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ ’’ہم نے انسان کو بہترین خلقت پر پیدا کیا ہے‘‘.اور سورۂ صٓ کی آیت ۷۵ میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں : لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ ؕ ’’اس (انسان) کو تو مَیں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے‘‘. (۱) اور اگرچہ قرآن میں تو اس کا ذکر نہیں ہے‘ لیکن تورات میں یہ مضمون بھی آیا ہے کہ :
"And God created man in his own image"
اور بعینہٖ یہ مضمون حدیث نبویؐ میں بھی موجود ہے کہ: خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ (۲) ’’اللہ نے آدم کی تخلیق اپنی صورت پر فرمائی ہے‘‘. اس کو بلاتشبیہ خیال کیجیے!
اب ایک طرف تو انسان کی عظمتوں کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف قرآن یہ بھی بتاتا ہے : خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا ﴿۲۸﴾ (النساء) ’’انسان کمزور پیدا ہوا ہے‘‘ . اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا ﴿ۙ۱۹﴾ ’’انسان تھڑدلا (کم ہمت) پیدا ہوا ہے‘‘. خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ عَجَلٍ ؕ (الانبیاء:۳۷) ’’انسان جلد باز پیدا کیا گیا ہے. (یعنی اس کی خلقت میں جلد بازی کا مادہ ہے‘جلد بازی اس کی طبیعت اور سرشت میں ودیعت شدہ ہے. کہیں فرمایا جاتا ہے : زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ ؕ (آل عمران:۱۴) یعنی انسان کے لیے عورتوں سے دلچسپی اور ان کی طرف شہوت کا میلان‘ اولاد کی محبت اور مال و اسبابِ دنیا کی مختلف صورتوں کی طرف بھی ایک کشش ہے جو اس میں طبعی طور پر ودیعت کر دی گئی ہے. یہ ہے انسان کی حقیقت ازروئے قرآن.