اسلام اور قرآن حکیم انسان کے سامنے جو اعلیٰ نصب العین پیش کرتے ہیں‘ اس کے حصول کے لیے جو جدوجہد درکار ہے اس کے لیے پہلے پختہ انسانی شخصیتیں ایک ناگزیر ضرورت کی حیثیت رکھتی ہیں. اور ان پختہ شخصیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے جو پروگرام اور لائحۂ عمل قرآن مجید تجویز کرتا ہے اس کا اوّل و آخر صلوٰۃ ہے. ہم نے قرآن حکیم کے ان دو مقامات پر دیکھا کہ آغاز میں بھی نماز کا ذکر ہے اور اختتام پر بھی نماز ہی کا ذکر ہے.میں اس بات کو نبی اکرمﷺ کی تین احادیث سے واضح کروں گا کہ اسلام کا نقطۂ آغاز نماز ہے. رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْـکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاۃِ (۱)
’’شرک و کفر اور بندے کے درمیان نماز ترک کرنے کا معاملہ حائل ہے‘‘.
یعنی اسلام اور کفر کے مابین امتیاز نماز ہی سے قائم ہوتا ہے. پھر دیکھیے کسی عمارت کی درمیانی اور اہم شے اُس کا عمود ہوتی ہے جس پر چھت کھڑی ہوتی ہے‘ جسے ہم ستون کے نام سے جانتے ہیں . رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَلصَّلٰوۃُ عِمَادُ الدِّیْنَ ’’نماز دین کا ستون ہے‘‘. پھر یہ کہ دین کی بلند ترین حقیقت کے بارے میں کہا گیا ہے : اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ ’’ صلوٰۃ مؤمنین کے لیے معراج کا درجہ رکھتی ہے‘‘. تو گویا کہ ابتدا بھی‘ اہم اور درمیانی عمود بھی ‘ اور چوٹی بھی‘ ان تمام مرحلوں میں ہم (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘باب بیان اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلاۃ. دیکھ رہے ہیں کہ نماز دین کی اہم ترین شے ہے. میں اسے یوں تعبیر کروں گا کہ اگر ہم انسان کی سیرت سازی کو ایک شہر سے تشبیہ دیں تو اس کے گردا گرد جو فصیل کھینچی ہوئی ہے وہ نماز ہے. واقعہ یہ ہے کہ اس پہلو سے بھی اگر دیکھا جائے تو نماز کو اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں قائم کر لے تو اس کی زندگی گویا کہ ایک حصار میں آ جاتی ہے‘ ایک کھونٹے سے بندھ جاتی ہے. پھر اس کے سارے پروگرام اس نماز کے حوالے سے طے ہوں گے‘ اس کی appointments اگر ہوں گی تو نماز کے اوقات کو مدّنظر رکھ کر ہوں گی‘ اس کے شب و روز کے معمولات میں فیصلہ کن چیز نماز ہو گی .لہذا پوری انسانی زندگی کو شکنجہ میں کس لینے والی شے نماز ہے.