اس صلوٰۃ کا ایک ظاہری نظام ہے. اس کی معین ہیئات ہیں‘ حرکات و سکنات ہیں. اس میں تکبیر تحریمہ ہے‘ ہاتھوں کا اٹھانا ہے‘ اس میں قیام اور رکوع ہے‘ پھر قومہ ہے‘ پھر سجدہ ہے‘ پھر جلسہ ہے‘ پھر دوسرا سجدہ ہے. اس طرح ایک رکعت کی تکمیل ہوتی ہے . اس کے مقررہ اوقات ہیں‘ ازروئے الفاظِ قرآنی : اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتۡ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا ﴿۱۰۳﴾ (النساء) پھر اس میں تعدادِ رکعات کی تعیین ہے. مزید برآں نماز باجماعت کا نظام ہے. یہ پورا صلوٰۃ کا نظامِ ظاہری ہے. اس کے بارے میں اوّلاً تو یہ اصل الاصول ذہن نشین کر لیجیے کہ یہ سارے کا سارا منقول ہے‘ ماثور ہے‘ مسنون ہے محمدٌ رسول اللہﷺ سے. اس کی اصل بنیاد میرا‘ آپ کا یاکسی اور کا اجتہاد نہیں ہے. شخصی اجتہاد پر معاملہ لے آئیں گے تو سب کی نماز علیحدہ علیحدہ ہو جائے گی‘ یکسانی اور یک رنگی نہیں رہے گی. لہذا رسول اللہﷺ نے فرمایا: صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ (۱) ’’صلوٰۃ ایسے ادا کرو( نماز ایسے پڑھو) جیسے مجھے دیکھتے ہو کہ میں پڑھتا ہوں‘‘.
اس صلوٰۃ کے ظاہری نظام کے بارے میں یہ بات بھی جان لیجیے کہ اس میں ہمیں عجیب حکمت یہ نظر آتی ہے کہ اس کے ذریعے سے اسلامی معاشرے میں اجتماعی سطح پر تطہیر و تنظیم کا ایک نہایت اعلیٰ نظام قائم کیا گیا ہے. اجتماعی طور پر نماز ادا ہو رہی ہے‘ ہر روز ایک ہی وقت میں دن میں پانچ مرتبہ مسلمان مساجد میں جمع ہو رہے ہیں. اجتماعی ماحول اس کے لیے جزوِ لازم بن گیا ہے. پھر اس میں تنظیم کا معاملہ مستقل طور پر ہو رہا ہے. محلہ وار تنظیم بھی ہے. جمعہ کے دن اس سے بھی بڑی تنظیم ہے. عیدین کے موقع پر بڑے بڑے شہروں میں تنظیم ہے. حج کے موقع پر پورے کرۂ ارضی سے وہ لوگ جوق در جوق جمع ہو رہے ہیں جو توحید کے ماننے والے ہیں اور جو محمدٌ رسول اللہﷺ کے کلمہ گو ہیں. اس طرح مسلمانانِ عالم کا عالمی اجتماع اور عالمی تنظیم کا مظاہرہ ہو رہا ہے. پس معلوم ہوا کہ اس نظامِ صلوٰۃ میں اجتماعی تطہیر و تنظیم بھی پیشِ نظر ہے.