نظامِ صلوٰۃ کے متعلق یہ بات جان لیجیے کہ اس میں اہم ترین چیز محافظت اور مداومت ہے.اس نظام کو مستقل قائم و دائم رکھنا ہے. یہ نہیں کہ جب چاہا نماز ادا کر لی اور جب چاہا گول کر دی. یا جب جی (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاذان‘ باب الاذان للمسافر اذا کانوا جماعۃ والاقامۃ. چاہا نماز توپڑھ لی لیکن اوقات کی پابندی نہیں کی گئی‘ یا بلا کسی عذر اور مجبوری کے گھر میں ہی ادا کر لی‘ مسجد میں حاضر نہیں ہوئے تو یہ طرزِ عمل اقامت ِ صلوٰۃ کے تقاضوں کے منافی ہے‘ اس طرح اس کی اجتماعی مصلحتیں اور حکمتیں بالکل ضائع ہو جائیں گی. چنانچہ اس کے لیے ’’محافظت‘‘ اور ’’مداومت‘‘ لازمی ہے.میں نے یہ دونوں الفاظ اسی سبق سے لیے ہیں. سورۃ المؤمنون اور سورۃ المعارج میں صلوٰۃ کے لیے جو آخری بات آئی ہے وہ محافظت ہے. سورۃ المؤمنون میں فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿۹﴾ اور سورۃ المعارج میں فرمایا : وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ﴿ؕ۳۴﴾ یعنی وہ لوگ جو اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں‘ اس کا پورا اہتمام کرتے ہیں‘ اس کے تمام قواعد و ضوابط اور اس کے تمام آداب کی پابندی ملحوظ رکھتے ہیں.نیز سورۃ المعارج میں فرمایا: الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ دَآئِمُوۡنَ ﴿۪ۙ۲۳﴾ ’’وہ لوگ جو اپنی نمازوں میں مداومت (یعنی ہمیشگی اور پابندی) کرتے ہیں‘‘.لہذا صلوٰۃ کے نظامِ ظاہری کے ساتھ اقامت‘ محافظت اور مداومت‘ ان تین الفاظ کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لیجیے.