آگے چلیے. صلوٰۃ کی ایک روح باطنی ہے.اس کے لیے لفظ ’’خشوع‘‘ آیا ہے: قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ ’’فلاح سے ہمکنار ہوئے وہ اہل ایمان جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں‘‘. یہاں خشوع سے اصلاً مراد ہے انسان کی معنوی شخصیت کا اپنے ربّ کے حضور میں جھک جانا. ظاہری طور پر تو جسم جھک ہی رہا ہے. آپ کھڑے ہوتے ہیں تو اس انداز سے جس میں جھکاؤ ہوتا ہے ‘ سینہ تان کر کھڑے نہیں ہوتے. پھر رکوع کرتے ہیں تو مزید جھکاؤ ہو گیا ہے. پھر جب سجدے میں گئے تو جھکاؤ کی انتہا ہو گئی. لیکن اگر صرف ظاہری طور پر جسم جھک رہا ہو‘ اور جو معنوی شخصیت ہے اور اندر کا انسان ہے اگر اس کی گردن اکڑی ہوئی ہو‘ وہ اللہ کے سامنے معنوی طو رپر سرنگوں اور Surrender نہ ہو رہا ہو‘ انسان کا نفس امّارہ سرکشی اور تمرّد پر تلا ہوا ہو‘ وہ اللہ کے سامنے نہ جھک رہا ہو تو ظاہری نماز تو ادا ہو گئی‘ لیکن جو حقیقی نماز ہے وہ ادا نہیں ہو گی. اسی لیے اس سبق میں خشوع کی طرف بھی توجہ دلادی گئی .
خشوع و خضوع اور حضورِ قلب وہ باطنی کیفیات ہیں جو مطلوب ہیں‘ اور اقامت‘ محافظت اور مداومت یہ وہ چیزیں ہیں جو نظامِ صلوٰۃ کے ظاہر کے ساتھ منسلک ہیں. اس ظاہر کے ساتھ اسلامی معاشرے کی اجتماعی مصلحتیں وابستہ ہیں اور اس باطنی کیفیات کے ساتھ ایک بندۂ مؤمن کی اپنی ذاتی سیرت و کردار کی تعمیر اور اس کے ترفع کا مسئلہ متعلق و وابستہ ہے. ان دونوں کے امتزاج سے نماز سے وہ اصل اور حقیقی برکات ظاہر ہوتی ہیں جن کا ذکر سورۃ العنکبوت کی آیت ۴۵ کے درمیان میں فرمایا گیا ہے : اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ ’’بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی اور بری بات سے‘ اور یقینا اللہ کی یاد ہی سب سے بڑی( اعلیٰ اور ارفع) بات ہے‘‘. لیکن اگر اس کے برعکس معاملہ ہو گا تو صلوٰۃ کی ادائیگی کے باوجود معاشرہ ان برکات سے محروم رہے گا.