زیر نظر درس میں انسان کی انفرادی سیرت و کردار کی تعمیر کے لیے اللہ تعالیٰ نے سات نکات پر مشتمل جو لائحہ عمل عطا کیا ہے‘ اب ہم اس کے آخری تین اوصاف کا مطالعہ کریں گے. اس لائحۂ عمل کا اوّلین اور اہم ترین نکتہ اقامۃ الصلوٰۃ ہے‘ دوسرا فعل الزکٰوۃ‘ تیسرا اعراض عن اللغو اور چوتھا ضبط نفس ‘یعنی جنسی جذبے پر قابو یافتہ ہونا. اس لائحۂ عمل کے آخری تین اوصاف یہ ہیں: (۱) امانت کی پاس داری (۲) ایفائے عہد (۳) اپنی شہادتوں پر قائم رہنا.

اب اگر آپ ایک خاص اعتبار سے غور کریں گے تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ پہلے تین اوصاف کا تعلق ایک شخص کی اپنی ذات کے ساتھ ہے‘ کوئی دوسرا شخص ان سے متعلق نہیں ہوتا. نماز کو قائم رکھنا‘ بے کار اور بے مقصد باتوں سے اعراض‘اللہ کی راہ میں خرچ کرنا‘ یہ تو خالص ذاتی نوعیت کے اوصاف ہیں. چوتھا وصف وہ تھا کہ جس پر انسانی تمدن کی صحت کا دار و مدار ہے. اس لیے کہ انسانی تہذیب و تمدن میں خاندان کے ادار ے کو جڑ اور بنیاد کی حیثیت حاصل ہے. عائلی زندگی اور خاندان کے ادارے کی صحت اور استحکام کا دار و مدار اس پر ہے کہ انسان اپنے جنسی جذبہ پر قابو اور ضبط رکھتا ہو‘ اسے کسی غلط رُخ پر نہ پڑنے دے.

اب جو آخری تین اوصاف ہیں جن پر ہمیں اجمالاً گفتگو کرنی ہے ‘ ان کا تعلق انسان کی اجتماعی زندگی کی اس سطح سے ہے جسے ہم ملی اور سیاسی زندگی کہتے ہیں. یعنی حکومت کانظام‘ نظامِ مملکت‘ قومی و ملی معاملات. اس ضمن میں آپ دیکھیں گے کہ تین اوصاف نہایت ضروری ہیں. ان میں سب سے پہلا وصف امانت داری اور دوسرا ایفائے عہدہے.

امانت داری اور پاس عہد کا ذکر سورۃ المعارج میں بھی ہے اور سورۃ المؤمنون میں بھی. اور دونوں جگہ پر ایک شوشے کے فرق کے بغیر بعینہٖ یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں : 
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ ﴿﴾ (المؤمنون:۸‘المعارج:۳۲امانت داری اور ایفائے عہد کے مابین جو ربط و تعلق ہے اور ان کی جو اہمیت ہے وہ ہمیں نبی اکرم کی ایک حدیثِ مبارکہ سے بخوبی معلوم ہو جاتی ہے. اس حدیث کے راوی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں جو مسلسل دس برس تک آپ کے خادمِ خاص رہے ہیں‘ اور اس کو روایت کیا ہے امام بیہقی رحمہ اللہ علیہ نے. حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلاَّ قَالَ ’’شاذ ہی کبھی ایسا ہوا ہو گا کہ آنحضور نے کوئی خطبہ ارشاد فرمایا ہو اور اس میں آپؐ نے یہ الفاظ نہ فرمائے ہوں‘‘ لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لاَ اَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لاَ عَھْدَ لَہٗ ’’جس میں امانت داری کا وصف نہیں ہے ا س کا کوئی ایمان نہیں ہے‘ اور جس میں ایفائے عہد کا وصف نہیں ہے اس کا کوئی دین نہیں ہے‘‘. اس لیے کہ ایمان کا امانت داری سے گہرا رشتہ ہے. دونوں کا مادہ ایک ہی لفظ ہے. ’’امن‘‘ سے ہی لفظ امانت بنا اور اسی سے ایمان بنا. چنانچہ یہ لازم و ملزوم ہیں‘ ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے. ایمان ہے تو امانت کا وصف بھی ہو گا‘ اگر امانت کا وصف نہیں ہے تورسول اللہ کے اس فتویٰ مبارک کی رُو سے حقیقی و قلبی ایمان بھی نہیں ہے.اسی طرح دین تو اصل میں نام ہے بندے اور ربّ کے مابین ایک عہد و معاہدہ کا. ہم نماز کی ہر رکعت میں جب سورۃ الفاتحہ کی یہ مرکزی آیت پڑھتے ہیں : اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴’’(اے ربّ!) ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کریں گے اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں اور چاہیں گے.‘‘ تو یہ اللہ کے ساتھ ایک قول و قرار‘ ایک معاہدہ اور ایک میثاق ہے. اب غور طلب بات یہ ہے کہ جو شخص انسانوں کے ساتھ کیے گئے عہد نہیں نباہ سکتا‘ جو انسانوں کے ساتھ کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کر سکتاتو ظاہر بات ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ پوری زندگی کے لیے کیا ہوا اتنا بڑا معاہدہ کیسے نباہے گا. اسی لیے رسول اللہ نے فرمایا: لَا دِیْنَ لِمَنْ لاَ عَھْدَ لَہٗ ایسا شخص حقیقی دین سے تہی دست ہے.

امانت داری اور ایفائے عہد کا ذکر سورۃ المؤمنون اور سورۃ المعارج دونوں میں آیا ہے. لیکن سورۃ المعارج میں ایک تیسری چیز کا اضافہ کیاگیا ہے : 
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِشَہٰدٰتِہِمۡ قَآئِمُوۡنَ ﴿۪ۙ۳۳﴾ ’’اوروہ لوگ جو اپنی شہادتوں پر قائم رہنے والے ہیں‘‘. غور طلب بات ہے کہ اس کا ذکر سورۃ المؤمنون میں کیوں نہیں آیا! یہ وہ واحد مثال ہے کہ جب ہم نے دونوں مقامات کا تقابلی مطالعہ کیا تو اس کا ذکر ہمیں سورۃ المؤمنون کی ابتدائی گیارہ آیات میں نہیں ملا. اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت شہادت بھی ایک امانت ہے. اگر کسی وقوعہ کے وقت آپ موجود تھے‘ آپ کی موجودگی میں کسی نے کسی پردست درازی کی ہے‘ کسی نے کسی پر ظلم کیا ہے‘ کسی نے کسی کو قتل کیا ہے‘ کوئی دوسرا حادثہ ہوا ہے‘ تو آپ کی وہاں موجودگی کی بنا پر جو شہادت آپ کے پاس ہے وہ معاشرہ‘ قوم و ملت اور ملک کی ایک امانت ہے. اگر آپ اسے چھپاتے ہیں تو آپ اس امانت میں خیانت کر رہے ہیں. لہٰذا جو چیز کسی فعل میں آپ سے آپ مضمر ہوتی ہے قرآن حکیم کہیں اس کا ذکر نہیں کرتا اور کہیں اس مضمر شے کو بھی عیاں کر دیتا ہے. چنانچہ شہادت بھی درحقیقت ایک امانت ہے. 

نبی اکرم نے امانت کے تصور کو اتنی وسعت دی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: 
اَلْمَجَالِسُ بِالْاَمَانۃِ ’’مجالس بھی امانتوں پر قائم ہیں‘‘. کسی محفل میں کوئی بات ہو رہی تھی‘ آپ بھی اس میں موجود تھے‘ آپ نے وہاں کوئی بات سنی اور کہیں اور جا کر بیان کر دی جب کہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی‘ تو یہ خیانت ہے. آپ نے کسی محفل کی بات کو اگر کہیں اور جا کر نقل کر دیا تو غیر شعوری یا شعوری طور پر بات میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے اور بات کرنے والے کے منشأ کے خلاف بھی بیان ہو سکتی ہے. ہو سکتا ہے کہ آپ بات کہنے والے کے صحیح مفہوم کو سمجھ نہ پائے ہوں. تو نہ معلوم اس سے کتنے فتنے اٹھنے کا احتمال پیدا ہو سکتا ہے! اور عین ممکن ہے کہ یہی بے احتیاطی بعض لوگوں کو بعض کے خلاف بدظنی اور بدگمانی میں مبتلا کرنے کا سبب بن جائے اور دلوں میں کدورت اور رنجش ڈیرے ڈال لے. تو کسی مجلس اور کسی محفل میں آپ شریک ہیں تو وہاں کی باتیں آپ کے پاس ایک امانت کے طور پر ہیں جن کی آپ کو حفاظت کرنی ہے. اسی طرح نبی اکرم نے فرمایا: اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ ’’جس کسی سے کوئی مشورہ طلب کیا جاتا ہے گویا اس کے پاس بھی ایک امانت رکھوائی گئی ہے‘‘. مشورہ طلب کرنے والے نے آپ پر اپنا اعتماد ظاہر کیا ہے. اب اگر آپ دیانتاً جو رائے رکھتے ہیں وہ کچھ اور ہے‘ لیکن آپ کسی مصلحت سے اپنی اس دیانت دارانہ رائے کو چھپا کر کوئی اور رائے ظاہر کرتے ہیں تو آپ نے اس کی امانت میں خیانت کی. یہ معاملہ بھی‘ جیسا کہ عرض کیا گیا‘ شہادت کا ہے.

سورۃ البقرۃ میں ایک بڑی اہم آیت ہے جس کے درمیان میں فرمایا گیا ہے : 
وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنۡدَہٗ مِنَ اللّٰہِ ؕ (آیت۱۴۰’’اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گاکہ جس کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی شہادت ہو اور وہ اسے چھپائے!‘‘اس فرمانِ الٰہی اور امانت و شہادت کے حوالے سے اُمت مسلمہ کا جو فرضِ منصبی ہے ہمیں اسے سمجھنا چاہیے. ہمارے پاس اللہ کا کلام ہے‘ اللہ کی ہدایت ہے‘ اللہ کا قانون ہے اور اللہ کی شریعت ہے. پھر ہمارے پاس اللہ کے رسول جناب محمد کی سنت ہے‘ آپ کی احادیث ہیں. آپؐ ‘کا اُسوئہ حسنہ کامل صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے. یہ تمام امانتیں ہیں جن کو ادا کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمارے کاندھوں پر رکھی گئی ہے‘ لہذا ان امانتوں کو ادا کرنا پوری اُمت مسلمہ کا فریضہ ہے. اس لیے کہ یہ پوری نوعِ انسانی کے لیے ہیں‘ صرف ہمارے لیے نہیں ہیں. جیسا کہ رسول اللہ کا سب سے بڑا وصف رسولِ امین یعنی امانت دار رسولؐ ہے‘ جن کے پاس پیغامِ ربانی آیا اور انہوں نے اسے بلاکم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا‘ چنانچہ امانت کا حق ادا کر دیا. آپ کو معلوم ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس پیغام کے پہلے امین ہیں‘ اُن کالقب بھی رسولِ امین ہے. دوسرے امین جناب محمدٌ رسول اللہ ہیں. حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ امانت پہنچائی نبی اکرم کو‘ اور آپ نے یہ امانت پہنچادی اُمت کو.اور اسی کو ہم یوں تعبیر کریں گے کہ نبی اکرم نے اُمت کے سامنے حق کی گواہی دے دی‘ توحید کی گواہی دے دی‘ اپنی رسالت کی گواہی دے دی‘ قرآن کی حقانیت کی گواہی دے دی‘ دین و شریعت کے اوامر و نواہی اور ہر ہر فعل و عمل کی گواہی دی‘ قولاً بھی اور عملاً بھی. اب اس امانت اور شہادت کو ادا کرنے کی ذمہ داری کا بوجھ اُمت مسلمہ کے کاندھوں پر عائد ہوتا ہے‘ جس کا ہر وہ شخص ایک فرد اور رکن ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا اور کہلواتا ہے.

ہمارا فرضِ منصبی یہ قرار دیا گیا ہے کہ ہم اس حق کی‘ اس دین کی‘ اس توحید کی اور جناب محمد کی رسالت کی شہادت دیں‘ کہ جن کے توسط سے ہمیں یہ ’’الہدیٰ‘‘ اور یہ ’’الحق‘‘ ملا ہے. اس موقع پر علامہ اقبال کا یہ مصرع بے اختیار میری زبان پر آ جاتا ہے کہ : ؏ ’’دے تو بھی محمدؐ ‘کی صداقت کی گواہی‘‘ .یہ گواہی ہمیں قولاً بھی دینی ہے اور عملاً اور فعلاً بھی. یہ گواہی ہم نے اپنی گفتگو‘ دعوت و تبلیغ اور اپنی قوتِ بیانیہ سے دینی ہے. یہ گواہی ہم نے اپنے قلم سے‘ مدلل مضامین و مقالات کی صورت میں دینی ہے‘ اور یہ گواہی ہمیں اپنے کردار اور اپنی سیرت سے دینی ہے. اگر ہم یہ نہیں کرتے تو ہم کتمانِ شہادت کے بہت بڑے مجرم ثابت ہو رہے ہیں. ازروئے قرآن: وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنۡدَہٗ مِنَ اللّٰہِ ؕ (البقرۃ:۱۴۰

یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ اس آیت سے چند آیات بعد سورۃ البقرۃ میں اُمت مسلمہ کا فرضِ منصبی بایں الفاظِ مبارکہ بیان ہوا ہے : وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ (آیت ۱۴۳یعنی ہم نے تمہیں ایک اُمتِ وسط (درمیانی اُمت) بنایا ہی اس لیے ہے کہ تم ہو جاؤ گواہ پوری نوعِ انسانی پر اور رسول(محمد ) ‘گواہ ہو جائیں تم پر‘‘. میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اہم مضامین قرآن مجید میں کم از کم دو جگہ ضرور آتے ہیں. سورۃ المؤمنون کی گیارہ اور سورۃ المعارج کی سترہ آیات کے باہمی تقابل سے ہم پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی ہے اور اِن مضامین کی اہمیت بھی سامنے آ گئی ہے. اسی کی ایک مثال اور جان لیجیے. سورۃ المؤمنون سے متصلاً قبل سورۃ الحج ہے. سورۃ المؤمنون کی پہلی آیت ہے : قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ اور سورۃ الحج کی جو آخری آیت ہے اس میں اسی شہادت علی الناس کا ذکر ہے. مسلمانوں سے خطاب فرما کر کہا جا رہا ہے : وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ یعنی اللہ کی راہ میں محنتیں کرو‘ مشقتیں کرو‘ ایثار کرو‘ قربانیاں دو‘جان و مال کھپاؤ‘مجاہدہ کرو‘ جیسا کہ اس کی راہ میں جہاد کا حق ہے. اس نے تمہیں چن لیا ہے‘ تمہیں امورِ نبوت کا وارث بنا دیاہے‘ کتابِ الٰہی کا وارث بنا دیاہے. اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم ترین امانت تمہارے سپرد کی ہے‘ ا ب اس کا حق ادا کرو.اور اسی آیت میں ایک Subordinate Clause کے بعد الفاظ آئے : لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ (آیت ۷۸’’تاکہ رسول ( ) گواہ بن جائیں تم پر اور تم گواہ بن جاؤ پوری نوعِ انسانی پر‘‘. تو یہ ہے پوری اُمت مسلمہ کی اجتماعی (collective) ذمہ داری جو شہادت کے اس لفظ کے حوالے سے ہمیں جان لینی چاہیے.

ان آیات کے ذریعے تین اوصاف پاسِ امانت‘ پاسِ عہداور شہادت کی ادائیگی کے بعد سورۃ المؤمنون اور سورۃ المعارج دونوں میں اوّلین اور اہم ترین وصف یعنی اقامتِ صلوٰۃ اور اس کی حفاظت کے وصف کا اعادہ فرمایا گیا: 
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿۹﴾ (المؤمنون) اور وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ﴿ؕ۳۴﴾ (المعارج) کے الفاظ میں پھر سورۃالمؤمنون میں فرمایا گیا : اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡوٰرِثُوۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾الَّذِیۡنَ یَرِثُوۡنَ الۡفِرۡدَوۡسَ ؕ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۱﴾ اور سورۃ المعارج میں ارشاد ہوا: اُولٰٓئِکَ فِیۡ جَنّٰتٍ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿ؕ٪۳۵﴾ کہ یہ ہیں وہ لوگ جو جنت الفردوس کے وارث بنیں گے. یہ ہیں وہ لوگ جن کا اعزاز و اکرام ہو گا جنتوں میں. اللہ تعالیٰ ہمیں ان اوصاف کو اپنی شخصیتوں میں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں بھی جنت میں داخل ہونے والوں میں شامل کر دے. آمین یاربّ العالمین! 

وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین