درس ۱۱: اللہ کے محبوب بندوں کی شخصیت کے خدوخال

سورۂ فرقان کے آخری رکوع کی روشنی میں



نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم . بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم 


تَبٰرَکَ الَّذِیۡ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ جَعَلَ فِیۡہَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیۡرًا ﴿۶۱﴾وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ خِلۡفَۃً لِّمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّذَّکَّرَ اَوۡ اَرَادَ شُکُوۡرًا ﴿۶۲﴾وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا ﴿۶۳﴾وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا ﴿۶۴﴾وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ﴿٭ۖ۶۵﴾اِنَّہَا سَآءَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿۶۶﴾وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ﴿۶۷﴾وَ الَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا ﴿ۙ۶۸﴾یُّضٰعَفۡ لَہُ الۡعَذَابُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ یَخۡلُدۡ فِیۡہٖ مُہَانًا ﴿٭ۖ۶۹﴾اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۷۰﴾وَ مَنۡ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوۡبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا ﴿۷۱﴾وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ ۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا ﴿۷۲﴾وَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِّرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ لَمۡ یَخِرُّوۡا عَلَیۡہَا صُمًّا وَّ عُمۡیَانًا ﴿۷۳﴾وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا ﴿۷۴﴾اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا ﴿ۙ۷۵﴾خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ حَسُنَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿۷۶﴾قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ ۚ فَقَدۡ کَذَّبۡتُمۡ فَسَوۡفَ یَکُوۡنُ لِزَامًا ﴿٪۷۷(الفرقان) 

’’بہت ہی بابرکت ہے وہ ہستی جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور روشن چاند بنایا. اور وہی ہے کہ جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے تعاقب میں لگا دیا‘ (اس میں نشانیاں ہیں) ہر اُس شخص کے لیے جو یاد دہانی اخذ کرنا چاہے یا شکر کی روش اختیار کرنا چاہے. اور رحمن کے (محبوب) بندے تو وہ ہیں جو زمین پر چلتے ہیں تواضع اور نرمی کے ساتھ اور جب اُن سے جاہل لوگ الجھتے ہیں تو وہ سلام کہہ کر علیحدہ ہو جاتے ہیں. اور وہ جو راتیں بسر کرتے ہیں اپنے ربّ کے حضور میں سجدہ کرتے ہوئے اور دست بستہ کھڑے رہ کر. اور وہ جو یہ کہتے ہیں اے ربّ ہمارے! پھیر دے ہم سے جہنم کے عذاب کو‘ یقینا اس کا عذاب چمٹ جانے والی چیز ہے. یقینا وہ بہت بُری جگہ ہے مستقل جائے قرار ہونے کے اعتبار سے بھی اور عارضی قیام گاہ کے اعتبار سے بھی. اور وہ جو جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی سے کام لیتے ہیں نہ بخل سے‘ بلکہ اُن کی روش اس کے بین بین ہوتی ہے. اور وہ جو نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو ‘ اور نہ قتل کرتے ہیں کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے مگر حق کے ساتھ‘ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی بھی یہ کرے گا وہ اس کی پاداش بھگت کر رہے گا. دوگنا کر دیا جائے گا اس کے لیے عذاب کو قیامت کے دن اوروہ اس میں رہے گا ہمیشہ ہمیشہ ذلیل و خوار ہو کر. سوائے اس کے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھے عمل کرے ‘ تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ بھلائیوں سے بدل دے گا. اور اللہ تو ہے ہی بخشنے والا‘ رحم فرمانے والا. اور جو توبہ کرتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے تو حقیقتاً وہی ہے جوایسی توبہ کرتا ہے جیسے کہ توبہ کرنے کا حق ہے اور وہ جو جھوٹ پر اپنی موجودگی تک گوارا نہیں کرتے اور اگر کسی لغو کام کے پاس سے اُن کا اتفاقاً گذر ہو جائے تو بھی دامن کو بچاتے ہوئے گذر جاتے ہیں. اور وہ جنہیں جب اُن کے ربّ کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں ٹوٹ پڑتے. اور وہ جو یہ کہتے ہیں کہ اے ربّ ہمارے! ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں اپنے نیک بندوں کے آگے چلنے والا بنا.یہ ہیں وہ لوگ جنہیں بدلے میں بالا خانے ملیں گے بعوض اُس صبر کے جو انہوں نے کیا‘ اور وہاں ان کا استقبال ہوگا نیک دعائوں اور سلام کے ساتھ. وہ اس میں رہیں گے ہمیشہ ہمیش‘ اور وہ بہت ہی عمدہ جگہ ہے مستقل جائے قرار ہونے کی حیثیت سے بھی اور عارضی قیام گاہ ہونے کے اعتبار سے بھی. (اے نبیؐ !) کہہ دیجیے: میرے ربّ کو تمہاری کوئی پروا نہیں ہے اگر نہ ہوتا تمہیں پکارنا. پس تم نے جھٹلا دیا ہے تو اب یہ جھوٹ جلد تم پر لاگو ہو کر رہے گا.‘‘

مطالعہ قرآن حکیم کے جس منتخب نصاب کا سلسلہ وار مطالعہ ان صفحات میں ہو رہا ہے‘ اس کا درس نمبر ۱۱ سورۃ الفرقان کی آیات ۶۱ تا ۷۷ پر مشتمل ہے. اس منتخب نصاب کے پہلے حصے میں چار جامع اسباق تھے. دوسرے حصے میں کچھ ایسے مقامات تھے جن کے ذریعے ایمان کے ضمن میں چند مباحث ہمارے سامنے آئے تھے. تیسرے حصے میں اعمالِ صالحہ کی بحث ہے جو چل رہی ہے. اس کے پہلے سبق میں ان اوصاف کا بیان تھا جو از روئے قرآن حکیم انسان کی سیرت کی تعمیر‘ یا بقول علامہ اقبال مرحوم تعمیرِ خودی کے لیے بنیادی لوازم اور اساسات ہیں. زیر درس آیات کے مطالعہ اور ان کی ترجمانی سے آپ نے محسوس کر لیا ہوگا کہ گزشتہ سبق کی طرح یہاں بھی چند اوصاف کا ذکر ہو رہا ہے. جس طرح سورۃ المؤمنون کے پہلے رکوع میں چھ مرتبہ اسمِ موصولہ ’’الَّذِیۡنَ‘‘ تکرارکے ساتھ آیا تھا اور سورۃ المعارج کی اُن آیات میں کہ جو سورۃ المؤمنون کی آیات کی ہم مضمون تھیں‘ آٹھ مرتبہ’’الَّذِیۡنَ‘‘ کی تکرار ہوئی‘ اسی طرح آج کے درس میں بھی ’’الَّذِیۡنَ‘‘ ایک مرتبہ آیا ہے اور ’’وَ الَّذِیۡنَ‘‘ سات مرتبہ دہرایا گیا ہے کہ عباد الرحمن یعنی ہمارے محبوب بندوں میں یہ اور یہ اوصاف ہوتے ہیں‘ اُن کی یہ اور یہ کیفیت ہوتی ہے‘ ان کی راتیں اس حال میں اور اس کیفیت میں بسر ہوتی ہیں‘ وہ جب خرچ کرتے ہیں تو اُن کی روش یہ ہوتی ہے‘ وغیرہم.

غور طلب بات یہ ہے کہ گزشتہ سبق اور اس سبق کے مابین منطقی ربط کیا ہے! آپ نے محسوس کر لیا ہوگا کہ اس مقام پر اُن اوصاف کا بیان ہو رہا ہے جنہیں ہم چوٹی کے اوصاف کہہ سکتے ہیں. یعنی ایک پوری طرح تربیت یافتہ خودی یا ایک پوری طرح تعمیرشدہ شخصیت کے یہ خدوخال ہونے چاہئیں. ایک بندۂ مؤمن کے جو نمایاں اوصاف اللہ کو پسند ہیں‘ ان کا اس سبق میں نہایت جامع بیان آیا ہے. اسے ایک مثال سے واضح کیا جائے تو وہ یہ ہوگی کہ جیسے ہم ایک عمارت بناتے ہیں تو اس کا ایک ڈھانچہ (structure) ہوتا ہے‘ جس میں سیمنٹ‘ لوہا‘ سریا اور لکڑی وغیرہ استعمال ہوتی ہے‘ اور عمارت کی اصل مضبوطی اور اس کا اصل استحکام اس کے سٹرکچر کی مضبوطی پر ہوتا ہے. پھر اس عمارت کی finishing اور اس کی آراستگی ہے. یعنی عمدہ پلاسٹر ہو‘ رنگ و رغن اعلیٰ ہو اور اس عمارت کے خدوخال کی خوبصورتی مختلف پہلوؤں سے ظاہر ہو رہی ہو. ظاہر بات ہے کہ جب آپ کسی عمارت کو دیکھتے ہیں تو اس کا سٹرکچر نگاہوں کے سامنے نہیں آتا. وہ تو ایک مخفی اور نظروں سے اوجھل شے ہے. جو چیز سامنے آئے گی وہ اس کے نمایاں خدوخال ہیں. اگر عمارت دل آویز ہے‘ خوبصورت ہے‘ پلاسٹر اچھا ہے‘ رنگ و روغن عمدہ ہے تو وہ دیدہ زیب ہوگی اور آپ کی نگاہوں کو اپنی طرف کھینچے گی. بالکل یہی ربط و تعلق ہمارے سابقہ سبق اور اس سبق میں ہے. یوں سمجھئے کہ سیرت و شخصیت کی تعمیر کا اساسی پروگرام تو وہ ہے جس پر ہم دو مقامات کے حوالے سے غور کر چکے ہیں‘ لیکن ایک مکمل تعمیر شدہ انسانی شخصیت میں‘ جس کی تعبیر علامہ اقبال مرحوم نے یوں کی ہے کہ : ؏ ’’کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مؤمن!‘‘

یہ دل آویزی جن اوصاف سے پیدا ہوتی ہے انہیں اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر نہایت جامعیت کے ساتھ بیان فرما دیا ہے.