سب سے پہلے ہم اس سبق کی پہلی دو آیات کا مطالعہ کرتے ہیں. واقعہ یہ ہے کہ ایمان کے ضمن میں جو بحثیں اس سے قبل اس سلسلۂ دروس میں ہو چکی ہیں‘ ان کا نہایت جامع خلاصہ ان دو آیات میں آ گیا ہے . فرمایا: 

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ جَعَلَ فِیۡہَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیۡرًا ﴿۶۱﴾ 
’’بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمانوں میں برج بنائے اور اس (آسمان) میں ایک چراغ روشن کیا (یعنی سورج) اور روشن چاند بنایا‘‘. 
وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ خِلۡفَۃً 
’’اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے تعاقب میں لگا دیا‘‘.

گویا وہ ایک دوسرے کاپیچھا کر رہے ہیں. رات دن کا پیچھا کرتی ہوئی چلی آتی ہے اور دن جیسے رات کا تعاقب کرتے ہوئے نمودار ہوتا ہے. یہ قانونِ طبیعی کی ایک بیّن حقیقت ہے. اسے سورۂ آل عمران کے آخری رکوع میں آیاتِ الٰہیہ سے تعبیر کیا گیا تھا. ازروئے الفاظِ قرآنی : 
اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۰﴾ۚۙ اور اس موقع پر ہم نے سورۃ البقرۃ کے اکیسویں رکوع کی پہلی آیت (البقرۃ :۱۶۴بھی تفصیل سے پڑھی تھی کہ اس کائنات کی ہر شے ایک نشانی ہے جس کو دیکھ کر لامحالہ ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان کا ذہن اُس کے خالق‘ اس کے مالک‘ اس کے صانع اور اس کے مصور کی طرف منتقل ہو جاتا ہے. اور اس کائنات کے مشاہدات سے اُس ذات کی صفاتِ کمال کا اندازہ ہوتا ہے کہ جو اِس کائنات کا بنانے والا ہے‘ وہ جو ’’عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ‘‘ ہے‘ اس کی قدرت میں کہیں کوئی کمی نہیں‘اس کے علم میں کہیں کوئی کمی نہیں‘ اس کی حکمت میں کہیں کوئی کمی نہیں‘ وہ ’’بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ‘‘ ہے‘ اور وہ ہستی ’’الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ‘‘ ہے.

یہ درحقیقت وہی مضمون ہے جسے یہاں بھی تمہید کے طور پر بیان کیاگیا ہے کہ جو لوگ اِن آیاتِ آفاقیہ پر غور و تدبر کرتے ہیں‘ جسے علامہ اقبال نے اس طرح تعبیر کیا کہ ؎

کھول آنکھ ‘ زمیں دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ!
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!

وہ لوگ جو اِس وسیع و عریض کائنات میں پھیلی ہوئی آیات سے اُس کے خالق کی معرفت حاصل کرتے ہیں‘ انہی میں یہ اوصاف پیدا ہوں گے کہ جن کا ذکر آگے آ رہا ہے. چنانچہ دوسری آیت کے آخر میں فرمایا: 

لِّمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّذَّکَّرَ اَوۡ اَرَادَ شُکُوۡرًا ﴿۶۲﴾ 
’’(یہ نشانیاں ہیں) اُس کے لیے جو چاہے تو یاد دہانی حاصل کرے یا چاہے تو (اللہ کا) شکرگذار بنے‘‘.

اِن الفاظِ مبارکہ سے آپ کے ذہن میں سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کا مضمون آگیا ہوگا کہ کائنات کے مشاہدہ سے جہاں تذکر حاصل ہوتا ہے‘ یاد دہانی نصیب ہوتی ہے‘ ذہن اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہاں ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احساس پیدا ہوتا ہے‘ اس کے احسانات کا ادراک حاصل ہوتا ہے کہ اُس نے انسان کی روزی کی فراہمی کے لیے کیا عظیم الشان نظام بنایا ہے! اُس نے انسان کی ہر ہر ضرورت کی بہم رسانی کے لیے کیا اعلیٰ انتظام و انصرام فرمایا ہے! وہ انسان کے جسم و جان کے تمام تقاضوں کو کس کس طریقہ سے پورا فرما رہا ہے. اس شعور و ادراک سے ایک دوسرا جذبہ جو انسان کے دل میں اُبھرتا ہے وہ جذبۂ شکر ہے. سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کی پہلی آیت ذہن میں تازہ کیجیے: 

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ ؕ 
’’ہم نے لقمان کو حکمت اور دانائی عطا فرمائی کہ کر شکر اللہ کا!‘‘

تو معلوم ہوا کہ اس کائنات کے مشاہدہ سے اور آیاتِ سماوی‘ آیاتِ ارضی‘ آیاتِ آفاتی اور آیاتِ انفسی سے ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان کو دو چیزیں اخذ کرنی چاہئیں ایک وہ جسے قرآن کریم تذکّر سے تعبیر کرتا ہے. یعنی اس کائنات کی وسعتوں میں انسان کی نگاہیں اُلجھ کر نہ رہ جائیں‘ بلکہ ان کو دیکھ کر اُن پر غور و تدبر سے اس کا خالق‘ اس کا مالک‘ اس کا صانع‘ اس کا مصور اور اس کا مدبر یاد آجائے اور ذہن و شعور اور عقل و ادراک اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ ہو جائے. جیسے علامہ اقبال نے کہا ہے : ؎

گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں!

تو دل کی آنکھ سے اس کائنات کے ذریعے اللہ تک پہنچا جائے تو اس کا نام تذکر ہے اور دوسرے یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ادراک ہو‘ اس کے احسانات کا شعور ہو‘ جس کے لازمی نتیجہ کے طور پر اس کے دل میں تشکر کے جذبات وجود میں آئیں. ان دونوں کے لیے یہاں فرمایا گیا:

لِّمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّذَّکَّرَ اَوۡ اَرَادَ شُکُوۡرًا ﴿۶۲﴾