ان اوصاف میں سے پہلا وصف آیا : الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا ’’وہ لوگ جو زمین پر چلتے ہیں آہستگی سے( نرمی سے)‘‘. ان کی چال سے تواضع نمایاں ہوتی ہے. یہ بات جان لیجیے کہ جیسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ: ".Face is the index of mind" آپ کسی انسان کے چہرے کو دیکھ کر اس کے باطنی احساسات و جذبات کا اندازہ کر سکتے ہیں‘ اسی طرح انسان کی چال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں غرور ہے‘ یہ کسی فخر میں مبتلا ہے‘ یہ گھمنڈی ہے. اکڑ کر چلے گا تو اس کی چال بتائے گی کہ اس کی ذہنی کیفیت کیا ہے! یا پھر اس کی چال سے یہ ظاہر ہوگا کہ اس میں عجز و تواضع ‘فروتنی‘ انکساری اور خاکساری ہے. تو یہ ہے پہلا وصف اور بندے کو یہ حقیقت پہچان لینی چاہیے کہ میں بندہ ہوں‘ آقا نہیں ہوں‘ آقا تو صرف ایک ہے اور وہ اللہ ہے ‘باقی بڑے سے بڑا انسان بھی بندہ ہے‘ اور عبدیت ہی درحقیقت ہمارا طرۂ امتیاز ہے. چنانچہ قرآن مجید میں جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم سے خصوصی عنایت کے ساتھ خطاب فرمایا ہے‘ یا آپ کا ذکر خصوصی محبت و شفقت اور التفات کے ساتھ فرمایا ہے وہاں حضور کی عبدیت کو نمایاں کیا جاتا ہے. جیسے: سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا اور: اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ اور جیسے: تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾. دیکھئے کس قدر لطیف ربط ہمارے سامنے آتا ہے! یہ اس سورۂ مبارکہ کی پہلی آیت ہے جس کے آخری رکوع کا ہم مطالعہ کر رہے ہیں. اس سورۂ مبارکہ کے آخری رکوع کا آغاز بھی ’’تَبٰرَکَ الَّذِیۡ‘‘ کے الفاظ سے ہوتا ہے. آغاز میں فرمایا گیا: ’’بڑی بابرکت‘ بلند مرتبت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے( ) پر الفرقان (یعنی قرآن مجید ) نازل فرمایا‘‘.

تو یہ عبدیت درحقیقت معراجِ انسانیت ہے. لہذا یہاں 
’’عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ ‘‘ فرمانے میں بڑی شفقت‘ محبت‘ عنایت اور التفات کے پہلو مضمر ہیں. مراد ہیں وہ لوگ جو واقعی اللہ کے بندے ہیں‘ ان کی چال ڈھال سے نمایاں ہوتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو بندہ ہی سمجھتے ہیں‘ آقا نہیں سمجھتے. یہ اپنے آپ کو مملوک سمجھتے ہیں اور اپنے مالک‘ اپنے آقا کو پہچانتے ہیں. چنانچہ ان کی چال گواہی دیتی ہے کہ فخر و غرور کے بجائے ان میں عجز و فروتنی کے احساسات و جذبات جاگزیں ہیں.

ہمارے اس منتخب نصاب کا جو تیسرا درس سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع پر مشتمل ہے‘ اس کے آخر میں بھی اسی وصف پر زور دیا گیا ہے : وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ ﴿ۚ۱۸﴾ حضرت لقمان اپنے بچے کو نصیحت فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اے میرے بچے! اپنے گال لوگوں کے لیے پھلا کر نہ رکھ اور زمین پر اکڑ کر مت چل‘ بے شک اللہ کو بالکل پسند نہیں ہیں شیخی خورے اور اترانے اور غرور و فخر سے کام لینے والے‘‘. تو یہاں نقطۂ آغاز وہ وصف ہے جہاں سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کے مضامین کی قریباً انتہا ہوئی تھی.