اس کے بعد فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ﴿۶۷﴾ ’’اوروہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل‘ بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے در میان اعتدال پر قائم رہتا ہے‘‘.
میانہ روی اختیار کرنا بھی شخصیت کی پختگی اور بالغ نظری کی علامت ہے. یعنی ایسا نہ ہو کہ اگر ایک وقت ہاتھ کشادہ ہے تو انسان اللّوں تللّوں میں پیسہ اڑا دے اور اگر کسی وقت تنگی ہو گئی ہو تو انسان بالکل بجھ کر رہ جائے اور نہ ایسا ہو کہ جہاں خرچ لازمی اور ضروری ہو وہاں وہ ہاتھ روک لے‘ یہ بخیلی ہے. ان تین رویوں کے بجائے ایک بین بین اور معتدل روش اختیار کرنا ایک اعلیٰ و ارفع وصف ہے. لہذا فرمایاکہ وہ لوگ جو جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف سے کام لیتے ہیں اور نہ بخل سے ‘ بلکہ ان کا طرزِ عمل اس کے بین بین ہوتا ہے. یہ بات بھی سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کے آخر میں آئی تھی : وَ اقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ ’’اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر‘‘ یہاں چال ڈھال میں بھی اعتدال مراد ہے اور خرچ میں بھی تو وہی وصف ہے جو یہاں ایک دوسرے اسلوب سے بیان ہوا .