سب سے کبیرہ گناہ‘ عظیم ترین گناہ‘ جس کے بارے میں سورۃ النساء میں دو مرتبہ یہ الفاظ وارد ہوئے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ (آیت ۴۸ و ۱۱۶’’بے شک اللہ اِس کو تو ہر گز معاف نہیں فرمائے گا کہ اُس کے ساتھ شرک کیا جائے‘ البتہ اس سے کمتر (گناہ) جس کے لیے چاہے گامعاف فرما دے گا‘‘ گویا قرآن مجید کی رُو سے ہمارے دین میں سب سے بڑا جرم‘ سب سے بڑا اور قطعی ناقابلِ معافی گناہ شرک ہے. سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کے درس کے ضمن میں ’’اقسامِ شرک‘‘ کے موضوع پر کچھ مختصر گفتگو ہوئی تھی کہ ایک شرک ہے شرک فی الذات. یعنی اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا. اور ایک شرک وہ ہے جو اللہ کی صفات کے ضمن میں ہے‘ یعنی شرک فی الصفات اور تیسرا شرک ہے شرک فی العبادت. اور نبی اکرم نے عبادت کے لبِّ لباب کی حیثیت دعا کو دی ہے. ارشادِ نبویؐ ہے: اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (۱’’دعا عبادت کا اصل جوہر ہے.‘‘ اور : اَلدُّعَاءُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ (۲’’دعا ہی اصل عبادت ہے‘‘. لہٰذا یہاں نوٹ کیجیے کہ الفاظ آئے ہیں : وَ الَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ’’اوروہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے‘‘. یہ پکارنا کس مقصد کے لیے ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ استمداد‘ استدعا‘ استغاثہ اور استعانت کے لیے. یعنی پکارنا کسی کو اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پکارنا کسی کو اپنی کسی مصیبت کو دُور کرنے کے لیے پکارنا کسی کو اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا کسی کو اپنی مشکل کشائی اور دستگیری کے لیے پکارنا کسی کو اپنی مدد و اعانت کے لیے. غور کیجیے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ’’اللہ کو چھوڑ کر کسی اور معبود کو نہیں پکارتے ‘‘ بلکہ واضح کر دیا گیا کہ : ’’اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنا‘‘ یہ شرک ہے. بس یوں سمجھئے کہ ہمارے دین میں شرک تو اکبر الکبائر ہے. کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا کبیرہ گناہ شرک ہے. چنانچہ آغاز میں سب سے پہلے اُسی کا ذکر ہوا. اس لیے کہ درحقیقت شرک سے انسان کا نقطۂ نظر غلط ہو جاتا ہے. گویا پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی لگ گئی تو اس کے بعد اس کا جو نتیجہ نکلے گا وہ ظاہر ہے کہ ؎

خشت اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج

پھر تو کجی ہی کجی ہوگی. انسان کی اپنی ذاتی سیرت میں بھی کجی ہوگی. ایسے لوگوں پر مشتمل جو معاشرہ وجود میں آئے گا وہ بھی کج ہوگا. لہذا یہاں سب سے پہلے شرک کا ذکر ہوا.

قتل ناحق : دوسرے بڑے گناہ کا ذکر بایں الفاظ ہوا : 
وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ ’’اور جو نہیں قتل کرتے کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے‘ مگر حق کے ساتھ‘‘. اس کا تعلق انسانی جان کے احترام سے ہے. یہ بات جان لیجیے کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قتلِ عمد (۱) سنن الترمذی‘ کتاب الدعوات عن رسول اللّٰہ ‘ باب المنہ.
(۲) سنن الترمذی‘ کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللّٰہ ‘ باب ومن سورۃالبقرۃ. 
ہے‘ اس لیے کہ اس سے تمدن کی جڑ کٹ جاتی ہے. یہ جو ہم کہتے ہیں کہ انسان ایک متمدن حیوان ہے‘ انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ "Man is a gregarious animal" تمدن کی بنیاد مل جل کر رہنا ہے. تہذیب‘ تمدن اور حضارت مل جل کر رہنے سے ہی وجود میں آتی ہے‘ اور اس کی جڑ اور بنیاد یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کی جانوں کا احترام کریں. اگر احترامِ جان ہی ختم ہو گیا تو گویا تمدن کی اساس ہی منہدم ہو گئی. لہذا تہذیب و تمدن کی بقا کے لیے لازم ہے کہ معاشرے کے اندر احترامِ جان کا پورا پورا اہتمام و التزام رہے. اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کو بہت محترم ٹھہرایا ہے. البتہ بعض ایسی صورتیں ضرور ہیں کہ جہاں کوئی شخص قانون کی زد میں آ کر قتل کامستوجب قرار پائے گا اور اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے گا.

شریعت میں 
اِلَّا بِالۡحَقِّ کی مصداق چار صورتیں ہیں. پہلی یہ کہ قتلِ عمد کی صورت میں اگر مقتول کے وارث دیت یا خون بہا لینے کے لیے بھی آمادہ نہ ہوں اور معاف کرنے کے لیے بھی تیار نہ ہوں تو جان کے بدلے جان لی جائے گی . ازروئے الفاظِ قرآنی : اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ (المائدۃ:۴۵’’کہ جان کے بدلے جان ہے.‘‘ دوسری یہ کہ کوئی شخص شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے تو شریعت میں اس کے لیے رجم کی سزا ہے کہ اس کو سنگسار کیا جائے تاآنکہ وہ ہلاک ہو جائے. تیسری یہ کہ اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے. چوتھی یہ کہ وہ کافر جو حربی ہو‘ جس کے ساتھ باقاعدہ اور اعلانیہ جنگ ہو رہی ہو. کسی اسلامی ریاست کا پُر امن ذمی یا معاہد غیر مسلم اس کا مصداق نہیں بن سکتا. اس کی جان تو اتنی ہی محترم ہے جتنی کسی مسلمان کی جان ہے. اُسے وہی تحفظات حاصل ہیں جو کسی مسلمان کو حاصل ہوتے ہیں. البتہ جہاں کفار و مشرکین کے ساتھ جنگ ہورہی ہو وہاں کافر کی جان مؤمن کے لیے حلال ہوگی. ان چار صورتوں کے سوا کسی بھی حالت میں انسانی جان کا لینا قتل ناحق ہوگا اور اس آیت مبارکہ کی رُو سے قتلِ ناحق کے متعلق یہ جان لیجیے کہ دینِ اسلام کے نظام میں شرک کے بعد یہ سب سے بڑا جرم ہے.

جنسی بے راہ روی : تیسری بات فرمائی کہ : 
وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ’’اور وہ زنا نہیں کرتے‘‘ ہم اس سے پہلے سورۃ المؤمنون اور سورۃ المعارج کی بعض آیات کے درس میں دیکھ چکے ہیں کہ اپنے شہوانی جذبات پر قابو پانے (sex discipline) کی کتنی اہمیت بیان ہوئی ہے. دونوں مقامات پر فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿۶﴾فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ ۚ﴿۷﴾ یہاں وہی بات ہے لیکن اسلوب منفی ہے.وہاں مثبت پہلو سے بیان کیا گیا کہ وہ لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں‘ اپنی شہوت پر قابو یافتہ ہیں‘ حلال راستہ کے علاوہ اپنی شہوت کی تسکین کے لیے کوئی حرام راستہ اختیار نہیں کرتے. یہاں وہی بات منفی اسلوب سے بیان فرمائی کہ ’’وہ زنا نہیں کرتے‘‘. البتہ یہاں جس سیاق (context) میں یہ بات آئی ہے اس سے ہمارے سامنے یہ عظیم حقیقت آتی ہے کہ قتلِ ناحق کے بعد سب سے بڑاجرم زنا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ جس معاشرے میں یہ فعلِ بد رواج پا جائے اس میں سے اعتمادِ باہمی اور محبت و الفت بالکل ختم ہو کر رہ جاتی ہے. اس لیے کہ باہمی محبت کا سرچشمہ ایک شوہر اور اُس کی بیوی کے مابین اعتماد کا احساس ہے. اگر یہ اعتماد موجود ہے تو محبت بھی ہوگی‘ مودّت بھی ہوگی اور یہ خاندان اس دنیا میں جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ کی کیفیت کا مظہر بن جائے گا. لیکن اگر کسی معاشرہ میں بدچلنی کا رواج ہو جائے‘ شوہر کو بیوی پر اعتماد نہ رہے اور بیوی کا شوہر پر سے اعتماد اٹھ جائے اور بے اعتمادی باہمی اعتماد کی جگہ لے لے تو اُس معاشرے میں اعلیٰ اوصاف کبھی ترقی نہیں کریں گے. جو نئی نسل اس گھر میں پرورش پائے گی اس میں حسنات اور اعلیٰ اخلاق کبھی بھی نشوونما نہیں پا سکیں گے‘ بلکہ ایسے ماحول میں پرورش پانے والی نسل میں ایک منفی کردار پیدا ہو جائے گا. تو گویا زنا وہ چیز ہے جو تمدن میں حسن و خوبی کے پھول کھلانے کے بجائے اسے ایک متعفن سنڈاس بنا کر رکھ دے گی. لہذا تیسری چیز فرمائی : وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ’’اور وہ زنا نہیں کرتے‘‘.