ان دو آیات کا مضمون ان سے پہلی دو آیات سے مربوط ہے‘ جن میں تین بڑے بڑے گناہوں کا ذکر کیا گیا‘ یعنی شرک‘ قتل ناحق اور زنا اور فرمایا گیا کہ جو کوئی ان جرائم کا مرتکب ہوگا اسے سزا مل کر رہے گی ‘ اور سزا بھی وہ جس میں اضافہ ہوتا رہے گا‘ اور پھر اس کے لیے خلود یعنی ہمیشہ ہمیش کے لیے سزا ہے. تو یہ نقشہ بعض اعتبارات سے خاصا مایوسی پیدا کرنے والا ہے کہ اگر کسی شخص سے ان میں سے کسی جرم کا ارتکاب ہوا ہو تو گویا یہ صورت حال اس کے لیے بڑی مایوس کن ہوگی. مایوسی کے اس اندھیرے میں اگلی دو آیات اُمید کی ایک کرن بن کر نمودار ہوتی ہیں.

فرمایا: 
اِلَّا مَنۡ تَابَ ہاں ‘جو توبہ کر لے وہ بچ جائے گا. معلوم ہوا کہ گناہ کے اثرات اشیاء کے مادی اور طبیعی اثرات کی طرح نہیں ہیں کہ ان کا ظہور لازماً ہو. جیسے اگر آپ نے آگ میں انگلی ڈالی تو وہ لازماً جل کر رہے گی. اس کے بعد اگر آپ توبہ کریں تو اس توبہ سے آگ کا انگلی پر جو اثر ہوا ہے وہ زائل نہیں ہوگا‘ وہ جلی رہے گی. اس لیے کہ یہ ایک طبیعی اثر (physical effect) ہے. لیکن اخلاقی جرائم کا معاملہ ایسا نہیں ہے. اگر کوئی گناہ ہوا ہو‘ کوئی خطا ہوئی ہو تو لازم نہیں ہے کہ اس کا اثر ضرور ظاہر ہو. بلکہ اس سے بچائو کا ایک راستہ ہے‘ اور وہ درحقیقت توبہ کا راستہ ہے. توبہ کی عظمت اور توبہ کی حقیقت کے بیان میں قرآن کا یہ مقام نہایت اہم ہے. بلکہ اس اعتبار سے اس کو قرآن مجید کی چوٹی قرار دینا غلط نہ ہوگا.

پہلے اصولی طور پریہ سمجھ لیجیے کہ توبہ کی اہمیت کیا ہے! انفرادی اعتبار سے بھی یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آجائے گی کہ اگر انسان اس مغالطہ میں مبتلا ہو کہ مجھ سے جو خطا ہو چکی ہے اس کی سزا تو مجھے لازماً بھگتنی پڑے گی‘ تو انسان پر مایوسی مسلط ہو جائے گی اور اصلاح کے لیے جو ہمت اور ارادہ درکار ہے‘ وہ اس میں باقی نہیں رہے گا. چنانچہ کتب احادیث میں ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ ملتا ہے جو جناب نبی اکرم نے صحابہؓ ‘کو سنایا.اس حدیث کے راوی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ متفق علیہ روایت ہے. رسول اللہ نے فرمایا کہ تم سے پہلے جو اُمتیں گذری ہیں ان میں سے کسی اُمت کے ایک فرد کا یہ واقعہ ہے کہ وہ بڑا سفاک قاتل تھا‘ اس نے ننانوے انسانوں کو قتل کیا تھا‘ لیکن پھر اس کی طبیعت میں کچھ تبدیلی پیدا ہوئی تو وہ ایک بہت بڑے عالم کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ میں ننانوے انسانوں کو قتل کر چکا ہوں‘ کیا اب بھی میری مغفرت کا کوئی راستہ کھلا ہے؟ اُس عالم نے کہا کہ نہیں‘ تمہاری مغفرت کی اب کوئی سبیل نہیں. حضور نے فرمایا کہ اس شخص نے اُس عالم کو بھی قتل کر دیا کہ میں ننانوے قتل تو پہلے ہی کر چکا ہوں‘ سو کیوں نہ پورے کر لوں!پھر اس نے ایک اور بڑے عالم کی طرف رجوع کیا. اس نے بتایا کہ نہیں‘ اللہ کی مغفرت و رحمت کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا‘ اگر تم اب بھی صدقِ دل سے توبہ کرو تو اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا. پھر اس عالم نے اس کی رہنمائی بھی کی کہ فلاں جگہ چلے جاؤ‘ وہاں تمہیں بہتر ماحول ملے گا. تم اب تک جس ماحول میں رہے ہو اگر تم اسی میں رہے تو شایدتم اپنی اصلاح نہ کر سکو. وہ شخص اپنی اصلاح کے ارادے سے اس مقام کی طرف چل پڑا جس کی رہنمائی اس عالم نے کی تھی. ابھی راستے ہی میں تھا کہ اس کی موت کا وقت آ گیا. رسول اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے بارے میں فرشتوں کے مابین یہ اختلاف رونما ہوا کہ اس کی روح کو عذاب والے فرشتے قبض کر کے لے جائیں یا رحمت والے فرشتے! اللہ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہوا کہ راستہ ماپ لو. وہ راستہ جس طرف وہ اصلاحِ احوال کی غرض سے قیام کے ارادے سے چلا تھا اگر اس راستہ سے کم رہ گیا ہے جو وہ طے کر چکا ہے تو اس کی روح کو رحمت کے فرشتے لے کر جائیں‘ بصورتِ دیگر اس کی روح کو عذاب والے فرشتے لے کر جائیں. راستہ ماپا گیا تو جس مقام کے ارادے سے وہ شخص چلا تھا وہ راستہ کم پایا گیا‘ لہذا رحمت والے فرشتے اس کی روح کو لے کر برزخ کی 
طرف روانہ ہوئے. ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا تو وہ راستہ جو ابھی طے کرنا باقی تھا ‘وہ سمٹ گیا‘ جبکہ وہ راستہ جو وہ طے کرچکا تھا ‘وہ پھیل گیا.

تو یہ ہے توبہ کا معاملہ انفرادی اصلاح کے ضمن میں کہ انسان جب بھی جاگ جائے‘ جب بھی ہوش میں آجائے‘ اگر سچے دل سے توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ نے مغفرت کی امید دلائی ہے. ایک حدیث میں الفاظ آئے ہیں کہ خواہ اس کے گناہوں کا ڈھیر کوہِ اُحد جتنا بلند ہو تب بھی سچی توبہ کے عوض اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا. اور مغفرت کے ضمن میں قرآن مجید کی سب سے زیادہ امید افزا آیت سورۃ الزمر کی یہ آیت ہے : 

قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۵۳﴾ 
’’(اے نبیؐ !) فرما دیجیے کہ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ! اللہ تمام گناہ بخشنے کا اختیار رکھتا ہے. اور وہ ہے ہی بخشنے والا‘ رحم فرمانے والا‘‘.

دنیا کے دوسرے مذاہب نے اپنے فلسفۂ اخلاق میں توبہ کے بارے میں بہت ٹھوکریں کھائی ہیں جس کے باعث ان کا نقطۂ نظر بہت کج ہو گیا ہے. مثلاً ایک عقیدہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے جو خطا ہو گئی تھی‘ جب کہ انہیں آزمائشی طور پر جنت میں رکھا گیا تھااور ایک خاص درخت کا پھل کھانے سے منع کر دیا گیا تھا مگر شیطان کے ورغلانے سے انہوں نے اس درخت کے پھل کو کھا لیا تھا‘ تو یہ گناہ گویا اب نسل آدم میں منتقل ہو رہا ہے. نوع انسانی کا جو بچہ پیدا ہو رہا ہے وہ پیدائشی طور پر گناہ گار ہوتا ہے‘ وہ اپنے جد امجدکے گناہ کی گٹھڑی لے کر اس دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے. ظاہر بات ہے کہ جہاں یہ غلط عقیدہ ہوگا وہاں اس پر مزید غلطیاں ہوں گی. چنانچہ پھر ’’کفارہ‘‘ کا عقیدہ ایجاد کیا گیا. یہ بنائے فاسد علی الفاسد ہے. اس کے برعکس قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ضرور ہوئی تھی‘ لیکن انہوں نے توبہ کی: 

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۲۳﴾ (الاعراف) 
’’اے ربّ ہمارے! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے‘ اب اگر تو ہم کو معاف نہیں فرمائے گا اور ہم پر رحم نہیں فرمائے گا تو لازماً ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے‘‘. اور سورۃ البقرۃ میں فرمایا: 

فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیۡہِ ؕ (آیت ۳۷
’’پس آدم نے کچھ کلمات اپنے ربّ سے حاصل کیے (اور جب ان کلمات کے ذریعے اللہ سے توبہ کی) تو اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی‘‘.
مزید یہ کہ توبہ کے بارے میں نبی اکرم کا یہ ارشاد بھی کتب احادیث میں موجودہے: 

اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَہٗ (۱
’’جو کوئی گناہ سے توبہ کر چکا اس کے لیے کوئی گناہ ہے ہی نہیں‘‘.

گویا وہ ایسے ہے جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں تھا. لہذا اب اس کا کوئی سوال نہیں ہے کہ نسل آدم علیہ السلام کا ہر بچہ پیدائشی طور پر گناہ گار ہو معاذ اللہ! قرآن مجید کا فیصلہ تو یہ ہے: 

فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ (الرّوم:۳۰
’’اللہ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے‘‘.

رسول اللہ نے فرمایا: 

مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ‘ فَـاَبَوَاہُ یُہَوِّدَ انِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ (۲
یعنی نسلِ آدم کا ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے‘وہ تو اس کے والدین ہیں جو اُسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں. پس قرآن مجید کے فلسفہ میں اور بعض دوسرے مذاہب کے فلسفہ میں یہ بڑا عظیم فرق و تفاوت ہے.