اب ہمیں اس بات کو سمجھنا ہے کہ توبہ کی شرائط کیا ہیں! صرف زبان سے کہہ دینے سے توبہ نہیں ہو جائے گی. توبہ کی چند شرائط اور کچھ لوازم ہیں. اگر وہ شرائط پوری نہ ہوں تو چاہے آدمی توبہ کی تسبیح پڑھتا رہے اور صرف زبانی طور پر استغفار کا کتنا ہی ورد کرتا رہے اسے توبہ نہیں کہا جائے گا. چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ علیہ نے جو بہت بڑے محدث گذرے ہیں ’’ریاض الصالحین‘‘ میں توبہ کے باب میں علمائے (۱) سنن ابن ماجہ ‘ کتاب الزھد‘ باب ذکر التوبۃ.
(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الجنائز‘ باب اذا اسلم الصبی فمات ھل یصلی علیہ وھل یعرض علی الصبی. وصحیح مسلم ‘ کتاب القدر‘ باب معنی کل مولود یولد علی الفطرۃ وحکم موت اطفال الکفار وانفال المسلمین. اُمت کا اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اگر توبہ کسی ایسے گناہ کے ضمن میں ہو جو حقوق اللہ سے متعلق ہے تو اس کے صحیح ہونے کی تین شرائط ہیں. لیکن اگر کوئی گناہ حقوق العباد کے ضمن کا ہے تو ایک اضافی شرط مزید شامل ہو جائے گی. پہلی تین شرائط حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں میں مشترک ہیں.
پہلی شرط یہ ہے کہ انسان کے دل میں سچی اور حقیقی ندامت ہو کہ میں اب تک جو کچھ کرتا رہا ہوں غلط کرتا رہا ہوں. اس پر واقعی پشیمانی ہو. اس حقیقت کو علامہ اقبال نے اپنے نوعمری کے دور کے اس شعر میں نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے‘ جسے داغ دہلوی نے بہت پسند کیا تھا اور اس پر داد دی تھی کہ ؎
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
تو اللہ کو بندے کی یہ پشیمانی اور ندامت بہت محبوب ہے.
دوسری شرط یہ ہے کہ عزمِ مصمم ہو کہ اب یہ کام دوبارہ نہیں کروں گا. تیسری شرط یہ ہے کہ فی الواقع اس گناہ کو ترک کر دے اور عمل صالح کی روش اختیار کرے. یہ تین شرائط حقوق اللہ کے ضمن کے گناہوں سے متعلق ہیں اضافی چوتھی شرط حقوق العباد کے معاملے میں ہے. وہ یہ کہ اگر کسی انسان کا حق مارا ہے تو اس کی تلافی کرے‘ کسی کا مال ہڑپ کیا ہے تو وہ مال واپس کرے یا اس سے معافی طلب کرے‘ کسی کی غیبت کی ہے تو اس کے پاس جا کر معافی چاہے‘ کسی پر ظلم کیا ہے تو اس کے لیے مظلوم سے عفو اور درگذر حاصل کرے. اس لیے کہ یہ جو حقوق العباد ہیں انہیں اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرمائے گا. اگر اس دنیا میں ان بندوں سے جن کی حق تلفی کی گئی ہے ‘معافی حاصل نہیں کی جائے گی تو آخرت میں نیکیوں اور گناہوں کا لین دین ہوگا. یعنی ظلم اور زیادتی کرنے والے شخص کی نیکیاں اس شخص کو دے دی جائیں گی جس کے حق پر اس دنیا میں دست درازی کی گئی تھی یا جس پر ظلم کیا گیا تھا. اگر زیادتی کرنے والے کی نیکیوں کا سرمایہ ختم ہو جائے گا تو پھر مظلوم کے گناہ ظالم کے وزنِ اعمال کے پلڑے میں ڈال دیے جائیں گے.
چنانچہ اس آیت پر غور کیجیے‘ فرمایا: اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا . یہاں صرف ایک لفظ ’’تَابَ ‘‘ نہیں آیا‘ بلکہ اس کے ساتھ ایمان اور عمل صالح کا ذکر بھی ہے. توبہ کے معنی ہیں لوٹنا‘ پلٹنا‘ رجوع کرنا تو فرمایا: مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ ’’جو توبہ کرے اور ایمان لائے‘‘ . اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں. ایک یہ کہ اگر وہ پہلے کافر تھا‘ اب ایمان لا رہا ہے تو وہ بھی کفر سے پلٹنے اور ایمان لانے کے اعتبار سے ان الفاظِ مبارکہ کے ذیل میں آجائے گا. دوسرا یہ کہ اگر وہ مسلمان تھا اور مسلمان ہوتے ہوئے بھی گناہ کر رہا تھا تو درحقیقت اس گناہ کی وجہ سے جو قلبی یقین والا ایمان ہے وہ زائل ہو گیا تھا. اب جب وہ توبہ کر رہا ہے تو گویا تجدید ایمان کر رہا ہے اور اس کے دل میں از سر نو ایمان داخل ہو رہا ہے. جیسا کہ ایک حدیث میں نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو ایمان اس کے دل سے نکل کر پرندے کے مانند اس کے سر پر منڈلاتا ہے. اب اگر وہ توبہ کرتا ہے تو ایمان اس کے دل میں لوٹ آتا ہے‘‘. لہذا جب دل میں تصدیق قلبی والا اور یقین والا ایمان ہو تو اس کے اثرات لازماً عمل پر مترتب ہوں گے اور وہ درست ہو جائیں گے. یہی وجہ ہے کہ توبہ کے فوراً بعد ایمان اور عمل صالح کا ذکر کیا گیا.
پھر اس توبہ‘ تجدید ایمان اور اعمالِ صالحہ کے مرتبہ اور مقام کا ذکر بایں الفاظِ مبارکہ فرمایا: فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ ’’پس ایسے لوگوں کے نامۂ اعمال میں سے اللہ ان کی برائیوں کو محو فرما کر ان کی جگہ نیکیوں کا اندراج فرما دے گا‘‘. یہ ہے اللہ کی نگاہ میں توبہ کی عظمت. اس آیت کا اختتام ان الفاظ مبارکہ پر ہوتا ہے: وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۷۰﴾ ’’اور اللہ تو ہے ہی بخشنے والا‘ رحم فرمانے والا‘‘. اس کی ذاتِ والا صفات میں مغفرت و رحمت کی شانیں بدرجۂ اتم موجود ہیں لہذا ایک مؤمن کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے. گناہ کی معافی کے لیے اس کی رحمت و مغفرت کے دروازے لوگوں کے لیے ہر وقت کھلے ہوئے ہیں‘ بشرطیکہ وہ اس کی جناب میں پورے لوازم و شرائط کے ساتھ توبہ کریں.
اگلی آیت میں اس بات کو پھر دہرایا گیا. عمل صالح توبہ کی شرطِ لازم ہے. انسان توبہ توبہ کہتا رہے اور اس کا عمل وہی رہے جو پہلے تھا تو یہ توبہ نہیں ہے‘ یہ تو اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے. بلکہ فرمایا: وَ مَنۡ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوۡبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا ﴿۷۱﴾ ’’اورجو شخص توبہ کرے اور عمل درست کرلے تو وہ ہے کہ جو اللہ کی جناب میں توبہ کرتا ہے جیسا کہ توبہ کرنے کا حق ہے‘‘.