یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۸﴾یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۹﴾ 
’’اے ایمان والو! توبہ کرو اللہ کی جناب میں خالص توبہ. اُمید ہے کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہاری برائیوں کو دور فرما دے گا اور تمہیں ان باغات میں داخل کرے گا جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی. اُس دن اللہ ہرگز رُسوا نہ کرے گا‘ نہ اپنے نبی کو اور نہ ان کے ساتھی اہل ایمان کو. ان کا نور دوڑتا ہوا ہوگا ان کے سامنے بھی اور ان کے دا ‘ہنی جانب بھی اور وہ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمارے لیے ہمارے اس نور کو پورا فرما دے اور ہماری خطاؤں سے درگذر فرما‘ یقینا تجھے ہر شے پر قدرت اور ہر کام پر اختیار حاصل ہے. اے نبی ( )! کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے ‘اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے‘‘.

ان میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ تمام اہل ایمان کو توبہ کا حکم دے رہے ہیں‘ یا یوں کہہ لیجیے کہ توبہ کی ترغیب دے رہے ہیں ‘لیکن توبہ وہ ہو جو خالص توبہ ہو‘ جو خلوصِ دل سے کی گئی ہو‘ جو صحیح معنی میں توبہ ہو. ہمارے اس سلسلہ ٔ دروس میں سورۃ الفرقان کے آخری رکوع کے ضمن میں توبہ کے موضوع پر بڑی مفصل گفتگو ہو چکی ہے اور توبہ کا فلسفہ‘ توبہ کی عظمت‘ ہمارے دین کی حکمت میں اس کا مقام اور توبہ کے صحیح ہونے کے لیے شرائط جیسے تمام امور زیر بحث آ چکے ہیں.

موقع کی مناسبت سے میں یہاں ایک حدیث کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں. یہ حدیث حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. اس کی ایک تو متفق علیہ روایت ہے ‘یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے جبکہ ایک ذرا تفصیلی روایت صرف مسلم شریف میں ہے. اس میں نبی اکرم نے اس بات کو واضح فرمانے کے لیے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے کسی بندے کی توبہ سے کتنی خوشی ہوتی ہے‘ ایک تشبیہ بیان کی ہے. آپؐ نے فرمایا کہ ایک ایسے شخص کا تصور کرو جو کسی لق و دق صحرا میں تنہا سفر کر رہا ہے‘ اس کے پاس ایک اونٹنی ہے‘ اسی پر اس کا زادِ راہ یعنی راشن اور پانی وغیرہ ہے. وہ تھوڑی دیر سستانے کے لیے کسی درخت کے سایہ تلے بیٹھتا ہے‘ اونٹنی بھی پاس ہی کھڑی ہے. وہاں پر اس کی آنکھ لگ جاتی ہے. اسی اثناء میں اس کی اونٹنی غائب ہو جاتی ہے.جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ دیوانہ وار اونٹنی کی تلاش میں کبھی اِدھر دوڑتا ہے‘ کبھی اُدھر بھاگتا ہے. اس کے اضطراب اور بیتابی کا آپ خود تصور کر سکتے ہیں‘ اس لیے کہ وہ اونٹنی ہی درحقیقت اس کے لیے وسیلۂ حیات اور ذریعۂ زندگی ہے. وہی اس کی سواری ہے‘ اسی پر اس کا کھانا اور پانی ہے. وہ ہر چہار طرف بھاگ دوڑ کرنے کے بعد مایوس ہو کر بیٹھ 
جاتا ہے. وہ موت کے انتظار میں آنکھیں بند کر لیتا ہے. اچانک وہ آنکھیں کھولتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ اونٹنی اس کے پاس کھڑی ہے. اس پر وہ اپنی خوشی کی شدت کے باعث ایسا بوکھلا اٹھتا ہے کہ کہنا تو یہ چاہتا ہے کہ ’’اے اللہ! تو میرا ربّ ہے ‘ میں تیرا بندہ ہوں‘‘ لیکن فرطِ جذبات سے اس کی زبان لڑکھڑاتی ہے اور اس سے الفاظ نکلتے ہیں ’’اے پروردگار! میں تیرا ربّ ہوں‘ تو میرا بندہ ہے‘‘. تصور کیجئے کہ اونٹنی دوبارہ پا لینے پر اس شخص کی فرطِ مسرت کا کیا عالم ہے! نبی اکرم یہ تشبیہ بیان کر کے ارشاد فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ کو اس سے بھی زیادہ خوشی اپنے کسی گنہگار بندے کی توبہ سے ہوتی ہے‘‘. احادیث میں توبہ کی جو عظمت بیان ہوئی ہے اور جس قدر شد ّو مدّ کے ساتھ اس کی ترغیب دی گئی ہے اسے سامنے رکھئے اور پھر اس آیت کا مطالعہ کیجئے کہ تمام مسلمانوں سے‘ خواہ وہ کسی زمان و مکان سے تعلق رکھتے ہوں‘ خطاب فرمایا جا رہا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ ’’اے ایمان والو! توبہ کرو اللہ کی جناب میں خالص توبہ‘‘.

توبہ کے ضمن میں دو مزید احادیث بھی پیش نظر رہنی چاہئیں‘ جن میں نبی اکرم ارشاد فرماتے ہیں کہ میں خود روزانہ ستر ستر اور سو سوبار اللہ کی جناب میں توبہ اور استغفار کرتا ہوں. ایک روایت صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ اس کے الفاظ ہیں : 
وَاللّٰہِ اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ فِی الْیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً (۱’’اللہ کی قسم! میں روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ کی جناب میں استغفار بھی کرتا ہوں ‘ توبہ بھی کرتا ہوں‘‘. دوسری روایت صحیح مسلم میں ہے جس کی رو سے نبی اکرم فرماتے ہیں : یَااَیُّھَا النَّاسُ‘ تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ‘ فَاِنِّیْ اَتُوْبُ فِی الْـیَوْمِ اِلَـیْہِ مِائَۃَ مَرَّۃٍ (۲’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کرو ‘ اس لیے کہ میں خود اُس کے حضور روزانہ سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم کی توبہ کے کیا معنی ہیں؟ حضور سے کسی گناہ کے ارتکاب کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. اس لیے کہ انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں. لہذا اچھی طرح جان لیجیے کہ نبی اکرم کی توبہ اور آپؐ کے استغفار کا معنی و مفہوم کیا ہے! دراصل توبہ کے معنی ہیں رجوع کرنا‘ پلٹنا‘ لوٹنا. اس کے کم از کم چار درجے اگر ذہن میں رکھے جائیں تو بات واضح ہوجائے گی.ایک شخص وہ ہے جو کفر سے توبہ کرتا ہے اور اسلام میں آتا ہے. ایمان لانا بھی ایک نوع (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الدعوات‘ باب استغفار النبی فی الیوم واللیلۃ. 

(۲) صحیح مسلم‘ کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار‘ باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ. 
کی توبہ ہے. جیسے ہم سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں پڑھ آئے ہیں : اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا دوسری توبہ کسی مسلمان شخص کی ہے جو معصیت سے توبہ کرتا ہے‘ گناہ کو چھوڑ رہا ہے‘ گناہ سے رجوع کر رہا ہے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اطاعت کی طرف. تیسری توبہ ہو گی اَبرار یعنی نیکوکاروں کی. کسی وقت ایک صالح اور نیک شخص کی قلبی کیفیت ایسی ہو سکتی ہے کہ معرفت الٰہی کے معاملے میں اس کے دل پر کچھ دیر کے لیے غفلت کا پردہ سا پڑ جائے. وہ محض غفلت ہے‘ اس سے کسی معصیت کا ارتکاب نہیں ہوا. اسے محض یہ احساس ہوا کہ میرے قلب پر کچھ دیر کے لیے غفلت کا حجاب طاری رہا ہے. اب وہ غفلت سے استحضار اللّٰہ فی القلب کی جانب رجوع کر رہا ہے‘ دل میں اللہ کی یاد کو مستحضر کرنے کے لیے اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہو رہا ہے‘ یہ بھی توبہ ہے پھر ایک توبہ مقربین بارگاہِ الٰہی کی ہے .یعنی اُن کے قلب کا جو مضبوط تعلق اور رابطہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استوار رہتا ہے‘ اس کی شدت میں اگر کبھی کوئی کمی محسوس ہوتی ہے تو اس حساسیت کے باعث وہ اس سے بھی توبہ کرتے ہیں اور اپنے تعلق مع اللہ کی اسی سابقہ شدت کی طرف رجوع کرتے ہیں. یہ ہے وہ کیفیت جس کو مقربین یعنی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی توبہ میں شمار کیا جا سکتا ہے کہ جب ان نفوسِ قدسیہ کو یہ محسوس ہو کہ کسی مصروفیت کے باعث ان کے تعلق مع اللہ کی شدت میں ذرا سی بھی کمی ہو گئی ہے تو وہ اس سے بھی توبہ کرتے اور رجوع فرماتے ہیں.

اس تناظر میں آپ سمجھئے کہ کوئی صاحب ایمان ایسا نہیں ہے جو اس حکم یا اس ترغیب کا مخاطب نہ ہو کہ 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ ’’اے ایمان والو! اللہ کی جناب میں توبہ کروخالص توبہ!‘‘خالص توبہ کون سی ہو گی؟ اس کے متعلق عرض کیا جا چکا ہے کہ کم از کم تین شرطیں پوری ہوں تو وہ خالص توبہ ہو گی. اگرحقوق اللہ کے ضمن میں کوتاہی ہوئی ہے تو (۱)شدید پشیمانی ہو (۲) مصمم ارادہ ہو کہ میں آئندہ اس کا ارتکاب نہیں کروں گا ‘اور (۳) انسان اس گناہ کے کام کو فی الواقع چھوڑدے. اور اگر حقوق العباد کا معاملہ ہے تو مزید ایک شرط یہ ہو گی کہ یاتو اس شخص سے جس کی حق تلفی کی ہے ‘معافی حاصل کرے یا اپنے کسی عمل سے اس کے نقصان کی تلافی کرے.
اس خالص توبہ کا مقام اور مرتبہ کیا ہے! اسے اسی آیت میں آگے بیان فرمایا: 
عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ عربی زبان میں ’’عَسٰی‘‘ اور ’’لَعَلَّ‘‘ کے الفاظ عام طور پر تو ’’شاید‘‘ کے معنی میں آتے ہیں‘ لیکن قرآ ن مجید میں جب یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو کر وارد ہوتے ہیں تو شاہانہ اندازِ کلام کی رو سے اس کے معنی ہوتے ہیں ’’تاکہ‘‘ اور ’’اُمید ہے کہ‘‘ یعنی اس میں بشارت کا پہلو ہوتا ہے . لہذا ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے تمہاری برائیوں کو دُور فرما دے گا‘‘ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ ’’اور تمہیں اُن باغات میں داخل فرمائے گا جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی‘‘.

آگے فرمایا کہ اُس دن یعنی قیامت کے روز سب کے لیے رسوائی ہو گی‘ صرف انبیاء کرام علیہم السلام‘ ان کے پیروکار اور سب سے بڑھ کر النبی الخاتم جناب حضرت محمد اور ان کے ساتھی اہل ایمان اس رسوائی سے بچے ہوئے ہوں گے : 
یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ آگے فرمایا:نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ ’’ان کا نور ان کے سامنے اور ان کی دا ہنی طرف دوڑتا ہوگا‘‘ یہ بات جان لیجیے کہ انسان کے ایمان کا محل و مقام اس کا قلب ہے. ایمان حقیقت میں ایک روشنی ہے‘ ایک نور ہے . یہ بات ہم سورۃ النور کی آیتِ نور کے حوالے سے پہلے اچھی طرح سمجھ بھی چکے ہیں . اس قلب میں جو نورِ ایمان ہے‘ وہ میدانِ حشر میں ظاہر ہو جائے گا اور اس کی روشنی انسان کے سامنے پڑے گی اسی طرح انسان کے نیک اعمال میں بھی ایک نور انیت ہے. البتہ اس دنیا میں اس کا ظہور نہیں ہوتا‘ میدانِ حشر میں اس کا ظہور ہو گا. نیک کاموں کا کمانے والا عام طور پر انسان کا داہنا ہاتھ ہوتا ہے‘ لہذا میدانِ حشر میں انسان کے نیک اعمال کا نور اس کے دا ہنی جانب نمایاں ہو گا . نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ ’’دوڑتا ہو گا ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دا ہنی طرف‘‘. یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ ’’اور وہ کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے ربّ! (اگر ہمارے نور میں کچھ کمی رہ گئی ہے تو) ہمارے لیے ہمارے نور کو پورا کر دے اور ہم کو معاف کر دے‘‘.

نبی اکرم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میدانِ حشر میں یہ نور ہر شخص کو اُس کے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے ملے گا. ایمان کے بھی مدارج و مراتب ہیں. ایک ایمان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے اور ایک ہماشما کا ایمان ہے.ان کے مابین ظاہر ہے زمین و آسمان کا فرق ہے. اگر ہمیں ایمان کی ذرا سی رمق بھی میسر ہو تو وہ بھی ہمارے لیے بہت بڑی کامیابی ہے. کہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا نورِ ایمان اور کہاں ہمارا ایمان ! حضور نے فرمایا کہ اُس روز میدانِ حشر میں لوگوں کو جو نور ملے گاتو کسی کا نور اتنا ہو گا کہ جیسے وہ مدینہ میں ہو اور اس کی روشنی صنعاء (یمن کے دارالحکومت) 
تک پہنچ جائے اور کسی کا نور بس اس قدر ہو گا کہ اس کے قدموں کے سامنے روشنی ہو جائے. جن کو اُس روز اتنا نور مل جائے وہ بھی بڑے نصیب والے اور کامیاب و کامران لوگ شمار ہوں گے‘ کیونکہ وہ اس کٹھن اور سخت مرحلہ سے گذر جائیں گے جس سے آگے ان کی منزلِ مراد یعنی جنت ہے .کم نور والوں کے نور کی حیثیت گویا اس ٹارچ کی روشنی کی سی ہو گی جس کو لے کر انسان کسی پگڈنڈی پر چل تو لیتا ہے. پس اس کٹھن مرحلہ کے لیے فرمایا کہ وہ لوگ دعا کر رہے ہوں گے کہ اے ہمارے ربّ! ہمارے نور میں ہماری کوتاہیوں کے باعث کمی رہ گئی ہے‘ پس تو ہمارے اس نور کا اتمام فرما دے اور ہماری کوتاہیوں سے درگذر فرما‘ ہمیں بخش دے. یہ ہمارے گناہ ہیں جن کی وجہ سے ہماری نورانیت میں کمی رہ گئی ہے‘ تُو اپنے خاص خزانۂ فضل سے اپنے خصوصی اختیار سے اس کمی اور تقصیر کی تلافی فرما دے‘ اس لیے کہ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۸﴾ ’’یقینا تجھے ہر شے کا اختیار حاصل ہے‘‘.

اس کے بعد اگلی آیت میں نبی اکرم سے خطاب ہے اور بظاہر یہ آیت اس سورت کے مضامین سے غیر متعلق سی معلوم ہوتی ہے. ابھی تک ساری باتیں آنحضور کے گھر والوں سے متعلق‘ اہل ایمان سے متعلق اور مسلمانوں کے عائلی نظام سے متعلق تھیں‘ لیکن یہاں یہ بات فرمائی گئی کہ : 
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ ’’اے نبی( )! آپؐ ‘ کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور اُن پر سختی کیجئے‘‘ .وہ آپؐ کی نرمی ‘ آپؐ ‘ کی مروّت‘ آپؐ ‘کی شفقت اور آپؐ ‘کی رحمتِ عمومی سے فائدہ اٹھانے نہ پائیں.وہ تو غلظت اور سختی کے مستوجب ہو چکے ہیں. ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے.

یہ آیت بعینہٖ انہی الفاظ کے ساتھ سورۃ التوبہ 
(آیت ۷۳میں بھی وارد ہوئی ہے. سورۃ التحریم کے مضامین سے اس آیت کا بڑا لطیف ربط ہے. دراصل اس سورۂ مبارکہ کا مرکزی مضمون (Axis) یہ ہے کہ نرمی‘ شفقت‘ دلجوئی‘ کسی کے جذبات کا لحاظ اور پاس کرنا یہ فی نفسہٖ تو بہت اچھی باتیں ہیں‘ بہت مطلوب اور پسندیدہ ہیں‘لیکن اگر اِن میں حدِّ اعتدال سے تجاوز ہوجائے تو یہ چیز مختلف پہلوؤں سے خرابیاں پیدا ہونے کا سبب بن سکتی ہے. اولاد کے ساتھ بے جالاڈ پیار اور بے جا نرمی کا معاملہ ہو تو اس کے بے راہ اور آوارہ ہو جانے کا خطرہ ہے. وہاں بھی نرمی مطلوب تو ہے لیکن ایک حد تک. اسی طرح جب انسان اپنے نفس کے معاملہ میں نرمی کرتا ہے تو خرابی کا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے. یہ بات ذہن میں رکھئے کہ چونکہ ہمارا دین‘ دینِ فطرت ہے‘ لہذا اس میں ہمارے اوپر اپنے نفس کے حقوق بھی معین کیے گئے ہیں. رسول اللہ  کا ارشاد ہے : وَاِنَّ لِنَفْسِکَ [عَلَیْکَ] حَقًّا (۱’’اور بے شک تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے‘‘. اس پر بے جا سختی پسندیدہ نہیں ہے. ہمارے دین میں رہبانیت جائز نہیں ہے. ارشادِ نبویؐ ہے: لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ (۲ہمارے دین میں نفس کشی کی اجازت نہیں ہے‘ بلکہ ضبطِ نفس کی ہدایت ہے کہ اپنے نفس کو کنٹرول میں رکھو. لیکن نفس کو بالکل کچل ڈالنا پسندیدہ نہیں ہے. اس کے تقاضوں کو صحت مند اور جائز و حلال ذرائع سے پورا کرنے کی اجازت ہے. اس نفس کے جو تقاضے ہیں وہ تمدن کے مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے ضروری ہیں‘لہذا اس پر بھی نرمی کرو. لیکن اگر یہ نرمی حدِّ اعتدال سے تجاوز کر جائے گی تو معصیت کی طرف لے جائے گی‘ لہذا اس کی باگیں تھام کر اور کھینچ کر رکھو اسی طرح کا معاملہ کفاراور منافقین کا ہے. ان کے بارے میں کوئی نرمی تمہارے دل میں نہ ہو. اہل ایمان کی جو شان قرآن مجید میں ایک سے زائد مقام پر آئی ہے وہ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ کی شان ہے.یعنی وہ کفار کے حق میں نہایت سخت ہوتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے نہایت رحیم و شفیق ہوتے ہیں. کفار کے لیے سختی کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ کہیں مسلمانوں کے جسد ملی میں انگلی نہ دھنسا سکیں‘ وہ مسلمانوں کو نرم چارا نہ سمجھ بیٹھیں. اس تناظر میں نبی اکرم کا معاملہ دیکھئے کہ آپؐ سراپا رحمت و شفقت ہیں. آپکی یہ شان خود اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ آپؐ روؤف و رحیم ہیں‘ آپؐ رحمۃ لّلعالمین ہیں. آپؐ میں نرمی‘ رقتِ قلب اور خلقِ خدا کے حق میں رأفت و رحمت کا معاملہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے. لہذا بسا اوقات اس سے کفار و مشرکین اور منافقین ناجائز فائدہ اٹھا جاتے تھے. چنانچہ آپ سے فرمایا گیا : 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۹﴾ 
معلوم ہوا کہ اس سورۂ مبارکہ کا جو مرکزی خیال ہے اس کے ساتھ یہ آیت بھی مربوط ہے‘ اگرچہ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس سورت کے سیاق و سباق سے اس کا کوئی خاص تعلق نہیں ہے. (۱) صحیح البخاری‘کتاب الجمعۃ‘ باب ما یکرہ من ترک قیام اللیل لمن کان یقومہ. وسنن الترمذی‘ کتاب الزھد عن رسول اللّٰہ ‘باب منہ.
(۲) فتح الباری لابن حجر۹/۱۳.