اس درس پر گفتگو کے آغاز سے قبل اگر ہم ان مضامین کا مختصر طور پر اعادہ کر لیں جو اس سے پہلے دروس میں بیان ہو چکے ہیں تو مباحث کی کڑیاں جوڑنے میں آسانی ہو گی. مطالعۂ قرآن حکیم کے اس منتخب نصاب کا پہلا حصہ چار جامع اسباق پر مشتمل تھا‘ جن میں اُخروی نجات کے چار ناگزیر لوازم یعنی ایمان‘ عمل صالح‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا بیان تھا. دوسرے حصے میں پانچ سبق تھے جن کا مرکزی موضوع ’’ایمان‘‘ تھا. تیسرے حصے میں ’’عملِ صالح‘‘ کی تشریح و توضیح چل رہی ہے. یعنی اس حصہ میں قرآنی تعلیمات کے عملی پہلو کا بیان ہو رہا ہے. اس ضمن میں سب سے پہلے ہم نے یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ انفرادی طور پر ایک بندۂ مؤمن کی سیرت و کردار میں اللہ تعالیٰ کو کون سے اوصاف محبوب ہیں. اس کے لیے ہم نے سورۃ المؤمنون کی ابتدائی آیات اور سورۃ المعارج کی ہم مضمون آیات کے حوالے سے یہ سمجھا کہ انفرادی سیرت کی تعمیر کے ضمن میں قرآن مجید کیا اصول بیان کرتا ہے اور اس کی کیا اساسات معین کرتا ہے. پھر سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں ہم نے پوری طرح تعمیر شدہ شخصیت یعنی علامہ اقبال کے ’’مردِ مؤمن‘‘ اور قرآن مجید کی اصطلاح میں ’’عبادالرحمن‘‘ کی سیرت و کردار کے خدوخال کا مطالعہ کیا. اس کے بعد انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف پہلے قدم یعنی خاندانی زندگی اور عائلی زندگی کے ضمن میں ہم نے پوری سورۃ التحریم کا مطالعہ کیا.
اب ہم ایک قدم اور آگے بڑھا رے ہیں. خاندانوں سے معاشرہ وجود میں آتا ہے جسے ہم سماج سے بھی تعبیر کرتے ہیں. اب ہمیں دیکھنا ہے کہ اس معاشرے کے ضمن میں قرآن مجید ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے! بالفاظِ دیگر یوں سمجھئے کہ قرآن مجید کی رُو سے وہ سماجی و معاشرتی اقدار (social values) کون سی ہیں جنہیں اسلام پسند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان کی ترویج و تنفیذ ہو‘ انہیں معاشرے میں رائج کیا جائے. اور اس کے برعکس وہ سماجی برائیاں (social evils) کون سی ہیں جنہیں اسلام ناپسند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان کو معاشرے سے بیخ و بُن سے اکھاڑ پھینکا جائے‘ ان کا استیصال ہو‘ ان کو معاشرے میں پنپنے نہ دیا جائے. یہ مضامین ہیں جو اِن اٹھارہ آیات میں ہمارے سامنے آ رہے ہیں.