قرآن حکیم میں مضامین کی تکرار کے ضمن میں چند باتیں قابل توجہ ہیں. قرآن مجید میں اگر مضامین کی تکرار ہوتی ہے تو اس سے اوّلاً تو ان مضامین کی اہمیت کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے. ثانیاً تکرارِ محض کہیں نہیں ہوتی‘ تکرارِ محض کلام کا عیب شمار ہوتا ہے اور قرآن مجید اس عیب سے پاک ہے. اگر کہیں کوئی مضمون دوہرا کر آتا ہے تو اسلوب بدلا ہوا ہوتا ہے. وہی بات کہ ؏ ’’اِک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں!‘‘ اس اندازِ بیان اور اسلوب کے فرق سے اس کلام کی دل نشینی‘ دل آویزی‘ اثر انگیزی اور اثر پذیری میں اضافہ ہوتا ہے. ثالثاً بعض مقامات پر ایسا ہوتا ہے کہ موضوع تو مشترک ہوتا ہے لیکن کہیں وہ انفرادی سیرت و کردار کے ضمن میں آ رہا ہوتا ہے اور کہیں وہی بات معاشرتی اور سماجی اقدار کی حیثیت سے سامنے لائی جا رہی ہوتی ہے. رابعاً جہاں بھی کوئی مضمون دوسری بار آتا ہے تو اگر اسے نظر غائر سے دیکھا جائے تو وہاں کوئی نہ کوئی نیا پہلو مل جاتا ہے. چنانچہ اگر قرآن مجید میں کہیں تکرار محسوس ہو تو آپ ان چاروں میں سے کسی نہ کسی ایک بات کو وہاں موجود پائیں گے. ان سب باتوں کو جمع کر کے سورۃ الزمر کی ایک آیت کی طرف اشارہ کر رہا ہوں جس میں قرآن مجید اپنا تعارف ان الفاظِ مبارکہ میں کراتا ہے : کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ (آیت ۲۳) یعنی یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے ؏ مضامین باہم مماثل ہیں اور دوہرا دوہرا کر آتے ہیں. بقول اقبال :
’’شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں مری بات!‘‘
اگر ایک انداز سے بات سمجھ میں نہیں آئی تو شاید دوسرے انداز سے سمجھ میں آ جائے.
زیر درس آیات کے متن اور ترجمہ سے ان آیاتِ مبارکہ کے مضامین کا ایک اجمالی نقشہ ہمارے سامنے آگیا ہے. اب ہم ان میں سے اہم نکات کے بارے میں کسی قدر تفصیل سے گفتگو کریں گے.
’’شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں مری بات!‘‘
زیر درس آیات کے متن اور ترجمہ سے ان آیاتِ مبارکہ کے مضامین کا ایک اجمالی نقشہ ہمارے سامنے آگیا ہے. اب ہم ان میں سے اہم نکات کے بارے میں کسی قدر تفصیل سے گفتگو کریں گے.