سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ ان آیات کے آغاز میں بھی شرک کی مذمت اور ممانعت ہے اور ان کا اختتام بھی اسی مضمون پر ہو رہا ہے. گویا وہ تمام اوصاف یا تمام اقدار جو ان آیات میں بیان ہو رہی ہیں ان کے لیے توحید باری تعالیٰ ایک حصار کی حیثیت رکھتی ہے. جس طرح ہم نے سورۃ المؤمنون کی آیات میں دیکھا تھا کہ انفرا دی سیرت کی تعمیر کے ضمن میں آغاز بھی نماز سے ہوا تھا : قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ اور پھر اختتام بھی نماز کے ذکر پر ہوا تھا: وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿۹﴾ اور یہی اسلوب سورۃ المعارج کی ہم مضمون آیات میں ملاحظہ کیا تھا‘ بعینہٖ یہ بات ہمیں یہاں توحید کے بارے میں نظر آ رہی ہے. اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چونکہ اسلام دین توحید ہے اور توحید کی ضد شرک ہے ‘ لہذا اسلام جو بھی معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے اس میں توحید کو مرکز کی حیثیت حاصل ہے اور شرک کا مکمل استیصال ہے. یعنی جہاں شرک کا شائبہ بھی نظر آئے اسے محو کرنا اس کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے. اس لیے کہ کوئی بھی معاشرہ اگر اپنے بنیادی نظریہ اور اپنے اساسی فکر کے خلاف کسی چیز کو در آنے کا موقع دے گا تو ظاہر بات ہے کہ اس سے اس معاشرے کی جڑیں کھوکھلی ہو جائیں گی. چنانچہ یہاں ابتداء میں فرمایا: وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہ بڑا فیصلہ کن انداز ہے کہ ’’اورتیرے ربّ نے طے فرما دیا ہے کہ مت بندگی کرو کسی کی سوائے اس کے‘‘.اختتام پر بھی توحید ہی کا مضمون ہے‘ البتہ انداز مختلف ہے : لَا تَجۡعَلۡ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ’’اوراللہ کے ساتھ کوئی اور معبود نہ ٹھہرا بیٹھنا‘‘. بات ایک ہے لیکن اسلوب جدا.
یہ دونوں باتیں تو فی الحقیقت شرک فی العبادت کی نفی کر رہی ہیں‘ مگر دنیا میں شرک کی ایک اور قسم بھی موجود رہی ہے‘ جسے شرک فی الذات کہتے ہیں ‘یعنی کسی کو خدا کا بیٹا یا بیٹی قرار دے دینا. جیسا کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اور عیسائیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیا. اسی طرح اہل عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قراردیتے تھے. چنانچہ ان کے جتنے بُت تھے ان کے نام مؤنث تھے ‘جیسے ’’لات‘‘ الٰہ کا مؤنث ہے ‘ ’’العُزیٰ‘‘ العزیز کا مؤنث ہے اور ’’المنات‘‘ المنان کا مؤنث ہے. انہوں نے فرشتوں کو اپنا معبود مانا اور ان کے بارے میں یہ سمجھا کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں. چنانچہ اس ضمن میں بڑے ہی لطیف پیرائے میں تنقید کی جا رہی ہے کہ ہوش مندو! تم نے اللہ کو الاٹ بھی کیں تو بیٹیاں!! اَفَاَصۡفٰىکُمۡ رَبُّکُمۡ بِالۡبَنِیۡنَ ’’کیا تمہارے ربّ نے تم کو تو چن لیاہے بیٹوں کے لیے؟‘‘ وَ اتَّخَذَ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنَاثًا ’’اور اپنے لیے فرشتوں کی صورت میں بیٹیاں اختیار کر لیں!‘‘ اِنَّکُمۡ لَتَقُوۡلُوۡنَ قَوۡلًا عَظِیۡمًا ﴿٪۴۰﴾ ’’جان لو کہ یہ بات جو تم اپنی زبان سے نکال رہے ہو‘ یہ بہت بڑی بات ہے‘‘. یہ اللہ کی جناب میں بہت بڑی جسارت ہے‘ بہت بڑی گستاخی ہے.