اگلی آیت میں قتل اولاد کی ممانعت ان الفاظ میں وارد ہوئی ہے:
وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ خَشۡیَۃَ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُہُمۡ وَ اِیَّاکُمۡ ؕ اِنَّ قَتۡلَہُمۡ کَانَ خِطۡاً کَبِیۡرًا ﴿۳۱﴾
’’اور اپنی اولاد کو مفلسی اور تنگ دستی کے خوف سے مت قتل کرو. ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی (دے رہے ہیں اور دیں گے). یقینا ان کا قتل بہت بڑا گناہ ہے‘‘.
ایامِ جاہلیت یعنی بعثت نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے قبل عرب میں یہ قبیح رواج تھا کہ پیدائش کے فوراً بعد اپنی اولاد کو مار ڈالتے تھے کہ ان کا خرچ کہاں سے لائیں گے! گویا معاشی محرکات اُن کو قتلِ اولاد جیسے ظالمانہ فعل پر آمادہ کرتے تھے. یہاں افلاس کے خوف سے قتل اولاد سے روکا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ رزق کے ٹھیکے دار تم نہیں ہو بلکہ اس کی پوری ذمہ داری اللہ پر ہے. وہی تمہیں رزق دیتا ہے اور وہی تمہاری آئندہ نسلوں کو بھی کھلائے گا. اولاد کا قتل ایک بہت بڑا گناہ ہے اور یہ فعل کبیرہ گناہوں میں شامل ہے. یہاں یہ بات بھی نوٹ کر لیجیے کہ ہمارے اکثر علماء کرام نے معاشی محرکات کے تحت منع حمل کی تدابیر کو بھی تبعاً اسی ’’نہی‘‘ کے حکم میں شامل قرار دیا ہے اور کسی حقیقی و ناگزیر طبی ضرورت کے علاوہ صرف معاشی محرکات کے پیش نظر اسقاطِ حمل کو تو واضح طور پر قتل اولاد کے گناہِ کبیرہ میں شمار کیا ہے.