وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا ﴿۳۲﴾ 
’’اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو‘ یقینا وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی گھناؤ نا راستہ ہے‘‘.

اس آیۂ مبارکہ میں زنا کی جس شدت کے ساتھ ممانعت وارد ہورہی ہے‘ وہ لفظ 
’’لاَ تَقْرَبُوْا‘‘ سے ظاہر ہے.اس سے پہلے سورۃ الفرقان میں بھی اس برائی کا ذکر آیا تھا‘ لیکن وہاں اسلوبِ مختلف تھا. وہاں عباد الرحمن کے اوصاف میں سے ایک اعلیٰ وصف یہ بیان کیا گیا کہ: لَا تَقۡرَبُوا ’’اوروہ زنا نہیں کرتے‘‘جبکہ یہاں انتہائی تاکیدی انداز سے نہی کے اسلوب میں حکم فرمایا جا رہا ہے کہ: وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی ’’اور زناکے قریب تک نہ پھٹکو‘‘. لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے معاشرتی اور سماجی نظام میں اس سماجی برائی (social evil) کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن تدبیر اختیارکی گئی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ بہت دُور دُور تک قدغنیں لگائی گئی ہیں تاکہ کوئی اس فحش کام کے قریب تک نہ پھٹک سکے.اس لیے کہ ہمارے معاشرے اور ہمارے سماج میں عصمت و عفت اور پاک دامنی (chastity) کو بڑی اہمیت حاصل ہے. چنانچہ ایک اسلامی معاشرے میں ہر ممکن تدبیر اور احتیاط اختیار کی جائے گی کہ اس بدکاری کے جو بھی محرکات‘ اسباب اور داعیات ہو سکتے ہیں‘ ان سب کے لیے بندشیں اور قدغنیں ہوں.

اس ضمن میں سب سے پہلی بات تو یہ نوٹ کیجیے کہ نبی اکرم کی تعلیمات میں بھی یہ وضاحت آئی ہے اور انجیل میں بھی یہ مضمون موجود ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی اس لفظ ’’زنا‘‘ کی وسعت کو ظاہر کیا ہے کہ یہ مجرد وہ فعل نہیں ہے جو اس لفظ سے عام طور پر مراد لیا جاتا ہے. چنانچہ حدیث نبویؐ میں الفاظ آتے ہیں : 
زِنَا الْعَیْنَیْنِ النَّظَرُ ’’آنکھوں کی بدکاری نظربازی ہے‘‘. اسی طرح رسول اللہ نے فرمایا کہ ہاتھوں کی بھی بدکاری ہے‘ پاؤں کی بھی بدکاری ہے‘ زبان کی بھی بدکاری ہے‘ کانوں کی بھی بدکاری ہے. آپ  نے ارشاد فرمایا کہ انسان کے یہ تمام اعضاء وجوارح بدکاری میں اپنا اپنا حصہ ادا کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ان تمام راستوں کو بند کیا گیا ہے جن کے باعث انسان کے اس جذبہ میں اشتعال و ہیجان پیدا ہو.

یہ حقیقت پسندانہ ہدف معین کرنے کے بعد کہ ہمیں اپنے معاشرے میں عصمت و عفت اور آبرو کی حفاظت کا اہتمام کرنا ہے اور بدکاری کا سدِّباب کرنا ہے‘ اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام میں اس کے لیے کیا تدابیر اختیار کی گئی ہیں. آگے بڑھنے سے پہلے یہ یہ ذہن نشین کر لیجیے کہ قرآن مجید میں جولفظ ’’زنا‘‘ آیا ہے اور جس نے ہمارے دین میں ایک اصطلاح کی شکل اختیارکر لی ہے‘ اس ایک لفظ میں انگریزی زبان میں مستعمل تین الفاظ 
’’ fornication adultery ‘‘ اور ’’rape‘‘ کا مفہوم موجود ہے. 

سب سے پہلے مثبت تدابیر کو لیجیے. ان میں اہم ترین مثبت تدبیر نکاح کو آسان بنانا ہے. اس لیے کہ اگر نکاح مشکل ہو‘ ہزاروں لاکھوں روپے کے انتظام کے بغیر نکاح نہ ہو سکے تو ظاہر بات ہے کہ شہوت کے جبلی تقاضے کی تسکین کے لیے بدکاری کی طرف رجحان ہو گا. جب تک جائز راستے کو کھولا نہ جائے اور اسے آسان نہ بنایا جائے اس وقت تک ناجائز راستوں کو بند کرنا بہت مشکل ہوتا ہے. جس طرح پانی کے بہاؤ کے راستے میں رکاوٹ ہو تو وہ سیدھا راستہ چھوڑ کر اِدھر اُدھر سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے‘ اسی طرح جنسی جذبے کی آسودگی کے جائز راستوں کو مشکل بنا دیا جائے گا تو وہ ناجائز راستے تلاش کرے گا. لہذا اسلامی معاشرے میں زنا کے فعلِ قبیح کو روکنے والا اہم قدم تسہیلِ نکاح یعنی نکاح کو آسان بنانا ہے. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں نکاح کے لیے رسومات کا کوئی طومار نہیں اور نہ ہی یہ نام و نمود اور دولت کی نمائش اور دھوم دھڑکّے کے اظہارکا کوئی ذریعہ ہے. شادی بیاہ کے موقع پر ہمارے یہاں بدقسمتی سے جو کچھ ہوتا ہے وہ درحقیقت ایک ملغوبہ ہے کہ ہم نے کچھ چیزیں تو اسلام کی اختیار کیں اور کچھ ہندوانہ معاشرت کی اپنا لیں. ہماری آبادی کی اکثریت ان ہندوؤں کی نسل سے تعلق رکھتی ہے جو ہندوستان میں آباد تھے اور انہوں نے اسلام قبول کیا تھا. یہ نومسلم اپنی سابقہ رسومات‘ روایات اور رواجات بھی اپنے ساتھ لے آئے. چنانچہ ہماری سماجی رسومات ایک کھچڑی ہے. ان میں ہندوانہ رسومات بھی شامل ہیں اور کچھ اسلامی افعال و اعمال کو بھی ہم نے ان میں داخل کر لیا ہے. ورنہ یہ دھوم دھڑکّا‘ یہ جہیز دینے کی رسم اور یہ بارات کا تصور‘ جیسے ایک لشکر کہیں کچھ فتح 
کرنے کے لیے جا رہا ہو ‘اور پھر بہت سی دوسری لغو اور فضول رسومات‘ یہ سب کچھ ہندوانہ پس منظر کی حامل چیزیں ہیں. اسلام کا معاملہ نہایت سادہ طریق پر ایجاب و قبول ہے. اسلام نے شادی کا جشن (celebration) لڑکے کے ذمہ رکھا ہے کہ وہ دعوتِ ولیمہ کرے اور اپنی وسعت کے مطابق اپنے اعزہ و اقارب اور احباب کو اپنی خوشیوں میں شامل کرے. پس پہلی چیز تو یہ ہے کہ نکاح کے راستے کو آسان بنایا جائے تاکہ کسی بھی نوجوان کا دھیان غلط رُخ کی طرف نہ جائے.
دوسرا مثبت طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ جنسی جذبہ کو ہیجان اور اشتعال دینے والی تمام چیزوں کو سختی سے روک دیا گیا ہے. مثلاً شراب کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ یہ انسان کے جنسی داعیہ کو اکساتی ہے! بعض دوسری منشیات کا اثر بھی اسی طرح کا ہوتا ہے . اسلام ان کو حرام قرار دیتا ہے تاکہ انسان بے خود ہو کر آپے سے باہر نہ ہو جائے. اس کی خودی کی گرفت اس کے پورے وجود پر رہے‘ اس کا شعور معطل نہ ہو اور وہ جنسی ہیجان سے شکست نہ کھا جائے‘ بلکہ ہر طرح سے بیدار رہے. اسی طرح رقص اور موسیقی کا بھی اسلامی معاشرے میں سدّباب کیا گیا ہے‘ کیونکہ یہ بھی جنسی جذبے میں ہیجان پیدا کرتی ہیں. اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جب تک ان چیزوں کا سدّباب نہیں ہو گا جن کے متعلق اسلام چاہتا ہے کہ وہ معاشرے سے بیخ و بن کی طرح اکھڑ جائیں‘ اس وقت تک زنا کی روک تھام ممکن نہیں ہو گی.

پھر اسلام اپنے معاشرے میں مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط کو پسند نہیں کرتا‘ بلکہ مردوں اور عورتوں کے علیحدہ علیحدہ دائرہ کار متعین کرتا ہے. عورت کا اصل دائرہ کار اس کا گھر ہے. جیسے سورۃ الاحزاب میں فرمایا: 
وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی (آیت ۳۳’’اوراپنے گھروں میں قرار پکڑو اور سابقہ دورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو‘‘.اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ عورت ضرورت کے تحت بھی گھر سے نہیں نکل سکتی. اسے ضرورت کے تحت نکلنے کی اجازت ہے اور اس کے لیے بھی اس سورۂ مبارکہ میں حکم موجود ہے کہ: یُدۡنِیۡنَ عَلَیۡہِنَّ مِنۡ جَلَابِیۡبِہِنَّ ؕ (آیت ۵۹’’(اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ) وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں‘‘.یعنی وہ اپنے پورے وجود کو ایک چادر میں لپیٹ کر چہرے پر ایک پلو اس طرح لٹکا لیا کریں کہ راستہ آسانی سے دیکھ سکیں اور حجاب کا تقاضا بھی پورا ہو سکے. یہاں میں نے ’’ضرورت کے تحت‘‘ کی جس اجازت کا ذکر کیا ہے وہ خود نبی اکرم نے دی ہے. چنانچہ صحیح بخاری میں روایت موجود ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: قَدْ اَذِنَ اللّٰہُ لَــکُنَّ اَنْ تَخْرُجَنَّ لِحَوَائِجِکُنَّ (۱’’اللہ تعالیٰ نے تم (عورتوں) کو اجازت دی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے گھر سے نکل سکتی ہو‘‘. مذکورہ بالا آیاتِ مبارکہ میں بناؤ سنگھار اور سج دھج کے ساتھ گھر سے نکلنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے اور اس فعل کو جاہلیت کا فعل قرار دیا گیا ہے.

اسی سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۳ میں اہل ایمان سے کہا جا رہا ہے کہ 
وَ اِذَا سَاَلۡتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسۡـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ’’اور جب تمہیں اُن (یعنی (نبی اکرم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن)سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگو‘‘. آیت کے اس حصے میں دو باتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ‘ ایک یہ کہ اس میں لفظ ’’حجاب‘‘ آیا ہے جس کے معنی ہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہے کہ ’’پردہ‘‘ کے ہیں. دوسر ی یہ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا جا رہا ہے جن کے لیے کہ ازواجِ مطہرات بمنزلہ روحانی ماں ہیں‘ جو اُمہات المؤمنین ہیں‘ کہ ان سے بھی اگر کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگیں. یہ اسلوب اس بات پر صریح دلالت کر رہا ہے کہ اسلام اپنے معاشرتی نظام میں مردوں اور عورتوں کے مابین اختلاط کو روکنے کے لیے کیسی کیسی احتیاطیں ملحوظ رکھ رہا ہے. اس ضمن میں یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ کہیں تنہائی میں نامحرم مرد اور عورت اکٹھے نہ رہیں. نبی اکرم نے فرمایا کہ جہاں کہیں نامحرم مرد اور عورت اکیلے ہوں گے وہاں تیسرا شیطان موجود ہو گا.

اب آگے بڑھئے‘ لباس کے سلسلے میں ہماری تہذیب و تمدن کی جو روایات بنی ہیں وہ یوں ہی نہیں بن گئیں . اسلام نے ستر کا تصور دیا ہے اور اس کے لیے مستقل احکام دیے ہیں. ستر سے مراد جسم کے وہ حصے ہیں جو ڈھکے رہنے چاہئیں. ستر پوشی کا شعور اللہ تعالیٰ نے انسان کی جبلت و فطرت میں رکھا ہے. چنانچہ وحشی سے وحشی قبائل کو بھی آپ جا کر دیکھیں تو ان کا پورا جسم اگرچہ ننگ دھڑنگ ہو لیکن وہ پتوں سے اپنے جسم کے کچھ حصوں کو چھپاتے ہیں. اس لیے کہ یہ تقاضائے فطرت ہے. اسلام کی رو سے مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنے کے نچلے حصہ تک ہے‘ اس پر کسی کی نگاہ نہیں پڑنی چاہیے‘ یہ ہر حال میں ڈھکا رہنا چاہیے. چنانچہ کسی بیٹے کے سامنے باپ کے جسم کابھی یہ حصہ نہیں کھلنا چاہیے. اسی طرح کسی بھائی کے سامنے اس کے بھائی کا بھی یہ حصہ نہیں کھل سکتا‘ یہ ستر ہے. اب عورت کے بارے میں دیکھئے. عورت کے بارے میں فرمایا گیا کہ : 
اَلْمَرْءَۃُ عَوْرَۃٌ ’’عورت سراپا ستر ہے‘‘ . یعنی عورت کا پورا جسم ستر ہے.واضح رہے کہ لفظ ’’عورت‘‘ کا معنی ’’ہی چھپانے کے قابل شے‘‘ ہے. اسی طرح (۱) بخاری کتاب النکاح، باب خروج النساء لحوائجھن . ہمارے یہاں عورتوں کے لیے لفظ ’’مستورات‘‘ استعمال ہوتا ہے. مستور ستر سے بنا ہے‘ اس کے معنی چھپی ہوئی شے کے ہیں. اس سے مستثنیٰ عورت کے جسم کے صرف تین حصے ہیں: چہرے کی ٹکیہ‘ ہاتھ اور ٹخنے سے نیچے پاؤں. یہ تین حصے ستر نہیں ہیں ‘ باقی پورا جسم ستر ہے. عورت کا سر بلکہ بال بھی ستر میں داخل ہیں. اب سمجھئے کہ ستر کے کیا معنی ہیں! یہ کہ عورت کے جسم کے ان تین حصوں کے سوا کسی اورحصے پر اس کے بھائی یا باپ کی نگاہ بھی نہیں پڑنی چاہیے. یہ حصے ہر حال میں مستور رہیں گے. سترسے آگے کا معاملہ شوہر اور بیوی کے لیے ہے. البتہ کسی اشد اور ناگزیر صورتِ حال میں مرد یا عورت کے ستر کا کوئی حصہ طبیب‘ ڈاکٹر یا جراح کے سامنے کھولا جا سکتا ہے. باقی باپ‘ بیٹا‘ بھائی ‘ بہن ان سب کے لیے ستر کی پابندی ضروری ہے. 

اسی ستر کے ضمن میں نبی اکرم نے مزید فرمایا کہ عورت کا ایسا لباس جس سے بدن چھلکتا ہو یا اس کی رعنائیاں نمایاں ہوتی ہوں ‘ستر نہیں ہے. بلکہ ایسا لباس پہننے والی عورتوں کو آپ نے 
’’کَاسِیَاتٍ عَارِیَاتٍ‘‘ قرار دیا ہے‘ یعنی لباس پہننے کے باوجود یہ عورتیں عریاں ہیں.صحیح بخاری میں اُمّ المؤمنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنہاسے مروی ایک طویل روایت کے آخری الفاظ ہیں : رُبَّ کَاسِیَۃٍ فِی الدُّنْیَا عَارِیَۃٌ فِی الْآخِرَۃِ ’’دنیا میں کپڑے پہننے والی بہت سی عورتیں آخرت میں عریاں ہوں گی‘‘.حدیث کے ان الفاظ سے ایسے باریک اور ایسے چست کپڑے پہننا مراد ہے جن سے جسم چھلکے یا عورت کی رعنائی کی چیزیں نمایاں ہوں. ایسی عورتوں کو کپڑے پہننے کے باوجود نبی اکرم نے ننگی قرار دیا ہے.
ایک مزید چیز جو ہماری تہذیب کا جزو ہے اور جو ہماری معاشرت میں قرآن مجید کے حکم کے مطابق داخل ہوئی ہے ‘وہ عورتوں کا دوپٹہ یا اوڑھنی ہے. ہماری معاشرت‘ ہماری تہذیب اور ہمارے تمدن کی اساسات کتاب اللہ میں موجود ہیں‘ اس کا تفصیلی ڈھانچہ جناب محمدٌ رسول اللہ نے بنایا ہے‘ پھر وہ ہماری معاشرتی زندگی میں پیوست ہو گیا ہے. چنانچہ ہمارے یہاں دوپٹہ کا جو تصور اور استعمال ہے اس کا حکم بھی قرآن مجید میں موجود ہے. سورۃ النور میں فرمایا : 
وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ (آیت ۳۱’’اور عورتیں اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈال لیا کریں‘‘.یعنی بکل مار لیا کریں. چاہے کسی خاتون نے کرتا پہنا ہوا ہے اور وہ موٹا بھی ہے‘ ڈھیلا بھی ہے‘ اس سے جسم تو ڈھک گیا‘ لیکن ابھی مزید کی ضرورت ہے‘ اور وہ دوپٹہ یا اوڑھنی ہے جسے اوڑھ کر عورت کا سر‘ سینہ‘ کمر سب اچھی طرح ڈھک جائیں. اگرچہ اِس دَور میں مغربی تہذیب کے اثرات کی وجہ سے ہمارا تمدن اس اعتبار سے ایک مغلوبہ بن رہا ہے کہ کچھ اسلامی اقدار بھی موجود ہیں‘ کچھ مغربی اقدار بھی آ گئی ہیں اور اس میں کچھ ہندوانہ رسوم و رواج بھی شامل ہیں‘ان سب کے امتزاج سے ہمارے معاشرے میں فی الوقت ایک عجیب کھچڑی پکی ہوئی ہے. چنانچہ ہماری نوجوان لڑکیاں جس قسم کا دوپٹہ استعمال کرتی ہیں وہ اس حکم کے منشاء کو پورا نہیں کرتا‘ بلکہ اس کے بالکل خلاف ہے. یہ بات سمجھ لیجیے کہ یہ بات گھر میں بھی پسندیدہ نہیں ہے کہ نوجوان لڑکی کا سینہ بغیر دوپٹے کے ہو. کون نہیں جانتا کہ عورت کے جسم میں سب سے زیادہ جاذبِ نظر اس کا سینہ ہوتا ہے. لہذا حکم دیا جا رہا ہے کہ : وَ لۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ .

پھر اسی سورۃ النور کی آیت ۳۰ میں تمام اہل ایمان مردوں اور آیت ۳۱ کی ابتدا میں تمام مسلمان خواتین کو غض بصر کا حکم دیا جا رہا ہے. مَردوں کے لیے فرمایا: قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ (آیت ۳۰’’(اے نبیؐ ! )مؤمن مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں‘‘. اسی طرح عورتوں کے لیے فرمایا: وَ قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ (آیت ۳۱’’اور (اے نبی!) مؤمن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں‘‘. ان آیات میں غض بصر سے مراد نگاہ بھر کر دیکھنے کی ممانعت ہے. یعنی مرد اپنی بیوی کے علاوہ کسی محرم خاتون کو بھی اور عورت اپنے شوہر کے علاوہ کسی محرم مرد کو بھی نگاہ بھر کر نہ دیکھے. جب محرموں کے نگاہ بھر کر دیکھنے کی ممانعت کی جا رہی ہے تو غیر محرموں کے لیے خود بخود اِس پابندی کاو زن بہت بڑھ جائے گا. چنانچہ اس قسم کی دیدہ بازی کو حدیث شریف میں آنکھ کے زنا سے تعبیر فرمایا گیا ہے. ایک طویل روایت میں ہے : اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَاھُمَا النَّظَرُ ’’آنکھیں زنا کرتی ہیں اور اُن کا زنا نظربازی ہے‘‘. ایک اور مشہور حدیث کا مفہوم ہے کہ نبی اکرم نے سرخیلِ اتقیاء حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے علی! کسی نامحرم پر اچانک اور بلاارادہ پہلی نگاہ کا پڑ جانا معاف ہے‘ لیکن ارادتاً دوسری نگاہ ڈالنا قابل مؤاخذہ ہے‘‘. 

مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم دیکھیں کہ قرآن مجید ہمیں کیا احکام دے رہا ہے اور نبی اکرم کی تعلیمات کیا ہیں. ان سب کے جو اثرات ہمارے تمدن پر مترتب ہوئے ہیں وہ بہت واضح ہیں. آپ کو معلوم ہوگا کہ مسلمان عورت کا ساتر لباس کیسے وجود میں آیا؟ مسلمانوں کے گھروں کی تعمیر کا کیا مزاج بنا؟ آج کل کے کوٹھی نماطرزِ تعمیر کے وجود کو پچاس ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ نہیں گذرا‘ ورنہ مسلمان چاہے امیر ہوتا تھا یا غریب‘ گھر خواہ بڑا ہوتا تھا خواہ چھوٹا‘ اس میں زنانہ اور مردانہ حصے علیحدہ 
علیحدہ ہوتے تھے. پہلے مردانہ حصہ آتا‘ پھر ڈیوڑھی ہوتی اور اس ڈیوڑھی سے آگے زنانہ حصہ ہوتا اور زنانہ حصے کے صحن کے چاروں طرف تعمیر ہوتی تھی. مسلمانوں نے اسلام کی تعلیمات کے زیر اثر اپنے تمدن میں اس طرزِ تعمیر کو ترقی اور نشوونما دی ہے. الغرض اسلام نے محرکاتِ زنا کے سدّباب کے لیے بہت دُور رس اقدامات کیے ہیں. ان میں سے چند ایک کے بیان پر اکتفا کیا جا رہا ہے. ان پابندیوں اور قدغنوں کا مقصود یہی ہے کہ بدکاری کے قریب بھی نہ پھٹکا جائے.فرمایا جا رہا ہے: وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا ﴿۳۲﴾ اس لیے کہ واقعہ یہ ہے کہ یہ بے حیائی کا کام تو ہے ہی‘ یہ ایک بہت برا راستہ بھی ہے جس پر کوئی معاشرہ پڑ جائے تو وہ تباہ و برباد ہو جائے گا.

اب غور کیجیے! اِس دَور میں ایک طرف تو فرائڈ کا نظریہ ہے‘ اور نفسیات کا کون سا طالب علم یہ نہیں جانتا کہ اس نے جنس کو کس قدر مؤثر عامل مانا ہے! اس کے فلسفہ کی رو سے اس کے انسانی زندگی کے تمام تفصیلی ڈھانچہ میں جنسی جذبہ کہیں نہ کہیں کارفرما ہے اور اس کے اثرات کم و بیش موجود ہیں. حد یہ ہے کہ اس کے فلسفہ کے مطابق اگر ایک باپ اپنی چھوٹی بچی کو پیار کرتا ہے اور ایک ماں اپنے چھوٹے بچے کو گود میں لے کر اس کو چومتی ہے تو وہ اس کامحرک بھی جنس کو قرار دیتا ہے .جبکہ دوسری طرف ہم اپنے آپ کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں کہ اسلام میں ستر و حجاب کی یہ پابندیاں اور قدغنیں شاید ثقافت‘ تہذیب اور تمدن کے اعتبار سے پس ماندہ لوگوں کے لیے ہوں گی. یہ ہمارا ایک علمی و فکری تضاد ہے. فرائڈ نے اپنے نظریہ کی بنیاد اپنے تجربات و مشاہدات پر رکھی ہے اور یہ یقینا گمراہی ہے اور اس میں نہایت مبالغہ ہے. لیکن اگر اس کادسواں حصہ بھی صحیح ہو تو جو نظام اسلام نے دیا ہے اس کے بغیر اس قسم کی برائیوں کی روک تھام ممکن نہیں ہے.

یہ مثبت اقدامات کرنے کے بعد اب اسلام منفی قدم اٹھاتا ہے اور وہ ہے حدود و تعزیرات. ان پابندیوں اور قدغنوں کے باوجود اگر کوئی شخص گندگی میں مُنہ مارتا ہے‘ بدکاری میں ملوث ہوتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی فطرت مسخ ہو چکی ہے‘ اس کے اندر گندگی گھر کر چکی ہے. لہذا ایسے شخص کے لیے سزا بہت سخت ہے. یعنی کوئی غیر شادی شدہ مرد یا عورت اس قبیح فعل میں ملوث ہو جائے تو اس کی سزا سلام نے سو کوڑے رکھی ہے ‘جبکہ شادی شدہ مردو عورت میں سے کوئی اس کا ارتکاب کرے تو اس کی سزا رجم یعنی سنگساری ہے. غیر شادی شدہ کے لیے عقل و منطق کی رو سے کسی قدر رعایت کا معاملہ سمجھ میں آتا ہے‘ کیونکہ اس کے لیے اپنی جبلت کے منہ زور تقاضے کو پورا کرنے کا کوئی جائز راستہ 
موجود نہیں ہے‘ لہذا ایسا فرد غلط رخ پر پڑ گیا ہے تو کچھ نرمی کا مستحق ہے. چنانچہ ایسے افراد کے لیے سو کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی. لیکن شادی شدہ مرد و عورت کے لیے رجم کی سزا ہے‘ جس کو دینی اصطلاح میں ’’حد‘‘ کہا جاتا ہے ‘یعنی ایسے افراد کو برسرعام سنگسار کر دیا جائے.

اس میں شبہ نہیں کہ رجم کی سزا بہت سخت سزا ہے‘ لیکن اس کی بے شمار حکمتیں ہیں. سب سے نمایاں حکمت تو یہ ہے کہ اس سزا سے پورا معاشرہ عبرت پکڑے اور اس قبیح فعل کے ارتکاب سے مجتنب رہے. دوسری حکمت یہ نظرآتی ہے کہ شادی شدہ جوڑے میں باہمی محبت و اعتماد کا رشتہ مضبوط رہے. تیسری حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ حسب و نسب میں خلل واقع نہ ہو. البتہ یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنی ضروری ہے کہ زنا کی اتنی ہولناک سزا رکھنے کے ساتھ یہ شرط عائد کر دی گئی ہے کہ اس فعل قبیح کی شہادت دینے والے چار عینی گواہ موجود ہوں. ظاہر ہے کہ اس فعل کو اس طور پر انجام دینا کہ چار چشم دید گواہ بھی موجود ہوں ‘اس فعل کی شناعت و قباحت میں کئی گنا اضافہ کا باعث ہوتا ہے. یہ گویا معاشرے کے لیے سرطان کے پھوڑے کی مانند ہے‘ جس سے معاشرے کو محفوظ رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ اس کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جائے. یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اسلام کی تاریخ میں رجم کی سزا اقراری مجرموں کو دی گئی ہے. یعنی ان افراد کو جن کے ضمیر نے اتنی ملامت کی کہ انہوں نے عذابِ اُخروی سے نجات پانے کے لیے اپنے اس گناہ کا اعتراف کر کے اس دنیا کی سزا قبول کر لی تاکہ وہ اس سزا کے بعد یہیں پاک ہو جائیں اور آخرت کی عقوبت سے بچ سکیں. اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے جملہ محرکات سے محفوظ و مأمون رکھے.آمین!