اگلا حکم ارشاد ہوا: وَ لَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ ’’اورنہ قتل کرو اس جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے مگر حق کے ساتھ‘‘. یہ الفاظ بڑے قابل غور ہیں. انسانی جان بہت محترم ہے. انسان کی جان کا ناحق لے لینا‘ خونِ ناحق بہانا‘ یہ بہت بڑا جرم ہے‘ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ترتیب میں تو شرک کے بعد یہی آتا ہے‘ اس کے بعد زنا کا معاملہ آئے گا. اس لیے کہ تمدن کی اصل اساس اور جڑ تو یہی ہے. انسان کو جو متمدن حیوان اور gregarious animal کہا جاتا ہے تو اس کے تمدن کی جڑ یہی احترامِ جان ہے. اگر کسی معاشرے میں ایک دوسرے کی جان کا احترام ہی نہ رہے تو ظاہر بات ہے کہ گویا تمدن کی جڑوں پر کلہاڑا رکھ دیا گیا ہے. یہ وہ بات ہے جو سورۃ المائدۃ میں ہابیل اور قابیل کے واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمائی کہ : مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ مَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ (آیت ۳۲) ’’جس کسی نے ایک انسان کی جان بھی جان کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا (کسی اور وجہ سے) لی تو اس نے گویا پوری نوعِ انسانی کو قتل کر دیا ‘ اور جس نے ایک انسان کو زندگی دی (اس کی جان بچائی) اس نے گویا پوری نوعِ انسانی کی جان بچائی‘‘.اس لیے کہ حقیقتاً قتل ناحق انسانی تمدن کی جڑوں کو کاٹتا ہے. چنانچہ فرمایا گیا کہ: وَ لَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ ’’جس جان کو اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے اس کو قتل نہ کرو‘‘.
اس کے ساتھ ہی فرمایا: اِلَّا بِالۡحَقِّ یہاں استثناء بیان کر دیا گیا کہ ’’مگر حق کے ساتھ.‘‘ اب یہ بہت اہم معاملہ ہے. ’’بِالْحَقِّ‘‘ سے مراد ہے ’’قانون کے تحت‘‘ جہاں کہیں حق واقع ہو جائے. اس حق کے واقع ہونے کی شریعت اسلامی نے چند صورتیں معین کر دی ہیں. قتل عمد کی سزا میں ایک صورت یہ ہے کہ قاتل کو قتل کیا جائے. اس سزا کی ایک دوسری متبادل صورت بھی ہے جو بعد میں عرض کی جائے گی. بہرحال قتلِ عمد کی سزا کے طور پر کسی قاتل کو قتل کر دینا ’’اِلاَّ بِالْحَقِّ‘‘ کی پہلی صورت ہے. دوسری صورت یہ ہے کہ (جیسا کہ پچھلی آیت کی وضاحت میں بیان کیا گیا) اگر کوئی شادی شدہ مرد یا عورت زنا کا ارتکاب کرے تو قانونِ اسلامی میں اس کی سزا بھی موت ہے‘ بلکہ بڑی بھیانک اور عبرت ناک موت ‘جس کو ہم رجم یعنی سنگسار کرنے سے تعبیر کرتے ہیں. تیسری صورت یہ ہے کہ اسلامی ریاست میں اگر کوئی مسلمان مرتد ہوتا ہے تو اس کی سزا بھی اسلامی قانون میں قتل ہے. اور چوتھی شکل ہے حربی کافر کا قتل‘ یعنی جس کے ساتھ اعلانِ جنگ ہو چکا ہو. کافر اگر ذِمی ہے تو وہ اسلامی ریاست کا شہری ہے‘ اسلامی ریاست نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے‘ اس کی جان بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی کسی بھی مسلمان شہری کی. تو یہ چار صورتیں ہیں کسی انسان کی جان لینے کی جن کو شریعت اسلامی نے جائز اور صحیح قرار دیا ہے. انسانی جان کا احترام لازم ہے‘ انسانی تمدن کی یہی جڑ‘ بنیاد اور اساس ہے.
اس کے بعد فرمایا: وَ مَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا فَلَا یُسۡرِفۡ فِّی الۡقَتۡلِ ؕ (اور جو کوئی مظلومانہ قتل کیا جائے تو ہم نے اس کے ولی کو (قصاص کا) اختیار عطا فرمایا ہے‘ بس چاہیے کہ وہ قتل ہی میں حد سے نہ بڑھے‘‘.جو شخص ناحق قتل ہوا ہے‘ یعنی بِالْحَقِّ قتل نہیں ہوا بلکہ قتل ناحق کا شکار ہوا ہے‘ اس کے ورثہ کو ہم نے ایک اختیار (سلطان) دیا ہے. سلطان کے معنی سند اور اختیار کے ہیں. بادشاہوں کی طرف سے اگر کوئی فرمان آتا ہے تو وہ بھی سلطان ہے. تو یہ سلطان اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس مقتول کے ورثہ کو حاصل ہوتا ہے جس کو ناحق قتل کیا گیا ہو. اس کے ولی اور اس کے وارث کو قاتل کے سلسلے میں ایک اختیار حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ قاتل کی جان لے سکتا ہے. گویا کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ضمن میں مالک اور مختار بنا دیا جاتا ہے. شریعت اسلامی نے اسے یہ قانونی حق دیا ہے. قانون کی مشینری اور حکومت کا نظام صرف یہ کریں گے کہ قاتل کو پکڑیں گے. اس پر جرم کے اثبات اور ثبوت کے سلسلے میں ساری کاروائی حکومت کے ذمے ہے‘ لیکن آخری فیصلے کے معاملے میں مقتول کے ورثہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے تو خون کے بدلے خون لیں‘ جان کے بدلے جان لیں‘ اور چاہیں تو جان بخشی کر دیں.اور اس کی بھی دو صورتیں ہیں‘چاہیں تو احسان کریں اور بغیر کسی معاوضے کے معاف کر دیں اور چاہیں تو خون بہا قبول کر لیں. یہ بڑا حکیمانہ قانون ہے‘ اگرچہ ظاہر ہے کہ کسی قبائلی معاشرے میں اس کا جتنا scope تھا ہمارے جدید معاشرے میں اس کا سکوپ اتنا نہیں ہے. اس لیے کہ قبائلی نظام میں مقتول کے ورثہ کا تعین ہوتا ہے ‘ یہ سارا معاملہ بالکل کھلا ہوتا ہے‘ لیکن یہاں اب ہماری شہری سوسائٹی میں تمدن کے اس مرحلہ میں کچھ معاملات اتنے واضح نہیں ہیں جتنے کہ اُس دَور میں ہوتے تھے. بہرحال اسلامی قانون میں یہ ایک امکان اور متبادل موجود ہے اور واقعتاً جان بخشی کی بڑی برکات ہیں.اس لیے کہ اس سے جو انتقامی قتل کا سلسلہ چلا کرتا ہے اس کے رکنے کے بڑے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں. ایک توواقعہ یہ ہے کہ مقتول کے ورثہ کے زخم پر گویا کہ مرہم رکھا جاتا ہے. انہیں اس وقت ایک عجیب تسکین ہوتی ہے جب انہیں یہ احساس ہو جائے کہ اب قاتل کی جان ہمارے ہاتھ میں ہے‘ ہم چاہیں تو بخشیں اور چاہیں تو اس کا خون بہا دیں. یہ اختیار حاصل ہو جانا زخمی دلوں کے لیے اپنے اندر مرہم کی تاثیر لیے ہوئے ہے. اور پھر یہ کہ اگر کسی مقتول کے ورثہ کی طرف سے اتنا بڑا معاملہ ہو جائے کہ قاتل کی جان اس کے قابو میں آنے کے بعد انہوں نے اس کو بخش دیا ہو تو یہ چیز معاشرے کے اندر بڑے صحت مند اور مثبت نتائج پیدا کرنے والی ہے. بجائے اس کے کہ دشمنی پر دشمنی اور قتل در قتل کا سلسلہ چلتا جائے‘ یہ چیزیں اس معاملے کے اندر بہت بہتر صورتِ حال سامنے لاتی ہیں. بہرحال یہ ہے قتل نفس کی شناعت اور اہمیت کہ یہ تین سب سے بڑے گناہوں میں سے ہے.
اس قتل ناحق کے سلسلے میں مقتول کے ورثہ کو بھی ایک ہدایت دی گئی کہ :
فَلَا یُسۡرِفۡ فِّی الۡقَتۡلِ ؕ کہ وہ قتل کے معاملے میں حد سے آگے نہ بڑھیں. اسراف فی القتل کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں. ایک یہ کہ اُس سوسائٹی میں مختلف قبائل مدعی تھے کہ ہماری عزت زیادہ ہے‘ ہمارے ایک شخص کی جان کسی دوسرے قبیلے کے دو افراد کی جان کے برابر ہے‘ ہمارا اگر ایک قتل ہوا ہے تو اس قبیلے کے دو افراد قتل کیے جائیں گے. یہ اسراف فی القتل کی ایک صورت ہے. دوسری صورت یہ ہے کہ قاتل کو مقتول کے ورثہ کے حوالے کر دیا جائے تو اب وہ خود اسے اذیتیں دے دے کر اور اس کے اعضاء کو ایک ایک کر کے کاٹ کر قتل کریں اور اسے پوری طرح اپنے انتقامی جذبے کا تختۂ مشق بنائیں.یا یہ کہ خون بہا لے لیا جائے لیکن پھر بھی دلی کدورت ختم نہ ہو‘ انتقامی جذبات پھر بھی موجود رہیں. یا یہ کہ قتل کے بدلے قتل بھی ہو گیا ہے پھر بھی جذبات ٹھنڈے نہیں ہو رہے اور مزید قتل کے لیے دل کے اندر عزائم اور ارادے پروان چڑھ رہے ہیں.یہ ساری صورتیں اسراف فی القتل کی ہیں. چنانچہ فَلَا یُسۡرِفۡ فِّی الۡقَتۡلِ ؕ کے زیر عنوان ان سب کا سدِّباب کر دیا گیا. آگے فرمایا: اِنَّہٗ کَانَ مَنۡصُوۡرًا ﴿۳۳﴾ ’’یقینا اس کی مدد کی جائے گی‘‘. اسلامی معاشرہ مقتول کے ورثہ کو مدد دے گا کہ وہ اپنا قصاص اور انتقام حاصل کریں لیکن بہرحال ان کے لیے بھی کچھ حدود ہیں جن کا انہیں پابند ہونا ہے.