اس کے بعد جو اخلاقی ہدایت کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے پہلی چیز آئی : وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ ’’اوریتیم کے مال کے قریب بھی نہ پھٹکو‘‘. یہاں بھی وہی انداز ہے جو زنا کے بارے میں آیا کہ وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی تو فرمایا: وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ’’اوریتیم کے مال کے قریب بھی نہ پھٹکو‘ سوائے اس (طور اور طریقے) کے جو بہت ہی اعلیٰ (اور بہت ہی عمدہ) ہو‘‘.اس میں درحقیقت ہدایت دی جا رہی ہے اُس معاشرے کو جس میں یہ رواج تھا کہ ایک طرف تو وراثت کو سمیٹنے کی کوشش کی جاتی تھی اور متوفّٰی کا بڑا لڑکا یا بڑے لڑکے پوری کی پوری وراثت پر قابض ہو جاتے تھے. تعدّدِ ازدواج تو وہاں موجود تھا. اب ہوتا یہ تھاکہ ایک شخص نے ابھی چند سال ہوئے شادی کی ہے‘ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں‘ اس کی پہلی شادی سے جو ان اولاد موجود ہے‘ اب اس کا جو بھی ترکہ ہے اس پر وہ جوان بیٹے قابض ہو گئے ہیں اور اس کی نابالغ اولاد بالکل محروم ہو گئی ہے‘ بلکہ محتاج ہو کر معاشرے میں بھیک مانگنے پر مجبور ہو رہی ہے. یا یہ کہ کسی یتیم کا کوئی ولی اور سرپرست ہے اور مختلف بہانوں اور طریقوں سے یتیم کا مال ہڑپ کر رہا ہے . ایک دوسرے کے مال کو ساتھ ملا کر بظاہر تجارت میں یتیم کا مال شامل کر لیا گیا ہے‘ لیکن مختلف حیلوں بہانوں سے کوشش ہو رہی ہے کہ کسی طرح اس کے مال کو ہڑپ کر لیا جائے. تو یہاں اس پس منظر میں ایک بڑی ہی اہم ہدایت دی جا رہی ہے کہ مالِ یتیم کو اپنے لیے مطلق حرام جانو‘ یوں سمجھو کہ یہ آگ ہے. جیسا کہ ایک جگہ قرآن مجید میں آیا بھی ہے کہ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡیَتٰمٰی ظُلۡمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ نَارًا (النساء:۱۰)’’یقینا جو لوگ یتیموں کا مال ہڑپ کرتے ہیں ظلم کے ساتھ وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں‘‘. انہیں جاننا چاہیے کہ اِس وقت تو یہ مال بڑا محبوب اور مرغوب نظر آرہا ہے ‘لیکن آخرت میں یہ آگ کے انگارے بنیں گے. تو یہاں فرمایا کہ یتیم کے مال کے قریب نہ پھٹکو مگر بہت ہی اعلیٰ طریقے پر‘ احتیاط کے ساتھ‘ اس کی خیر خواہی کرتے ہوئے‘ اس کے مال کا اپنے آپ کو محافظ جانتے ہوئے. حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ’’یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے‘‘. اسے اپنے نفع اور نقصان کی خود سمجھ حاصل ہو جائے‘ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی استعداد پیدا ہو جائے. تو اس صورت میں ظاہر بات ہے کہ وہ تمام مال اس کے حوالے کر دیا جائے گا.
یہ مالِ یتیم کے سلسلے میں ابتدائی ہدایتیں ہیں. اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قرآن کو سننے اور اسے پڑھنے کا انداز یہ تھا کہ جو احکام اس میں وارد ہوتے تھے وہ اُن پر آخری امکانی حد تک عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے. چنانچہ بہت سے ایسے صحابہؓ ‘جن کے زیر تربیت‘ زیر کفالت یا زیر سرپرستی کچھ یتیم تھے اور ان کا بھی کچھ مال تھا‘ انہوں نے اس سلسلے میں انتہائی احتیاط شروع کر دی. مثلاً کوئی یتیم ہے اور اس کا باغ ہے‘ کوئی یتیم ہے اور اس کا بھی کوئی بھیڑوں یا بکریوں کا گلہ ہے. اب ظاہر بات ہے کہ جو یتیم کا ولی اور سرپرست ہے وہی اس کی دیکھ بھال کر رہا ہے. تو یہاں تک کیا گیا کہ یتیم کی ہنڈیا اس کے مال میں سے علیحدہ پکے گی‘ تاکہ اس کا مال اور ہمارا مال کہیں مشترک ہانڈی میں جمع ہو کر گڈمڈ نہ ہو جائے اور مبادا اس کے مال میں سے کوئی بوٹی یا اس کے شوربے میں سے کوئی ایک دو چمچے ہمارے پیٹ میں چلے جائیں. اس معاملے میں جب انتہائی شدت اختیار کی گئی تب سورۃ البقرۃ میں حکم نازل ہوا کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا ‘ اللہ صرف یہ چاہتا ہے کہ احتیاط رکھو‘ محتاط ہو جاؤ‘ یتیم کا مال ہڑپ نہ کرو‘ اپنے آپ کو اس کا امین سمجھو. یہاں تک کہ پھر سورۃ النساء میں تفصیلی احکام آئے کہ جب وہ جوان ہو جائے تو اس کا مال اس کے حوالے کر و اور اس پر گواہ بناؤ کہ کیا مال تھا اور کس کس طریقے سے اس کے حوالے کر دیا گیا ہے. یہ بڑے تفصیلی احکام ہیں. یہاں پر اس کو بھی اسلام کے نظامِ معاشرت میں بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کر دیا گیا.