ان اوامر و نواہی یعنی do's & dont's کے سلسلے میں اگلا حکم ہے : وَ اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ اِذَا کِلۡتُمۡ وَ زِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ ’’اورجب تم ناپو تو پیمانہ پورا کرو اور جب تولو تو سیدھی ڈنڈی کے ساتھ تولو‘‘. ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا ﴿۳۵﴾ ’’یہی بہتر طرزِ عمل ہے اور انجامِ کار کے اعتبار سے بھی عمدہ ہے‘‘ .یہ گویا کسی معاشرے میں لینے اور دینے کے باٹ برابر رکھنے کی تاکید ہے. اگرچہ اس کا اطلاق وسیع تر پیمانے پر بھی ہو سکتا ہے کہ انسان لینے اور دینے کے پیمانے برابر رکھے اور جن معیارات پر وہ دوسروں کو پرکھتا ہے انہی پر وہ اپنے آپ کو بھی پرکھے ‘ جس ترازو سے وہ دوسروں کو تولتا ہے اسی سے اپنے آپ کو تولے‘ جس پیمانے سے اپنے آپ کو ناپ رہا ہے اسی سے دوسروں کو ناپے‘ لیکن یہاں تعین کے طور پر ہمارے انسانی معاشرے میں کاروباری لین دین اور exchange کا جو سلسلہ چلتا ہے اس کے ضمن میں یہ بنیادی ہدایت دی جا رہی ہے کہ جب ناپ کر دو تو پیمانہ پورا کرو اور جب تول کر دو تو سیدھی ڈنڈی کے ساتھ تولو.
قرآن مجید کی بالکل ابتدائی سورتوں میں بھی اس سماجی برائی یعنی ذرا سی ڈنڈی مار لینے اور ناپ تول کے اندر کچھ کمی کر دینے پر بڑی خوبصورتی کے ساتھ گرفت کی گئی ہے. سورۃ المُطَفِّفین کا آغاز ہی ان آیات سے ہوتا ہے : وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ الَّذِیۡنَ اِذَا اکۡتَالُوۡا عَلَی النَّاسِ یَسۡتَوۡفُوۡنَ ۫﴿ۖ۲﴾وَ اِذَا کَالُوۡہُمۡ اَوۡ وَّزَنُوۡہُمۡ یُخۡسِرُوۡنَ ﴿ؕ۳﴾ ’’ہلاکت (بربادی‘تباہی) ہے اُن مُطفِّفین (ڈنڈی مارنے والوں )کے لیے کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب اُن کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کمی کر دیتے ہیں‘‘. عربی زبان میں ’’طفّ‘‘کہتے ہیں کسی بہت حقیر سی شے کو. یہاں پر بڑا بلیغ پیرایۂ بیان ہے کہ ڈنڈی تھوڑی سی مار لو گے‘ سیر میں آدھی چھٹانک‘ چھٹانک‘ تولہ ‘ دو تولہ کی کمی کر لو گے. یہ نہایت حقیر اور چھوٹی بات ہے جس کے لیے تم نے اپنی دیانت اور امانت کا سودا کیا. اس کے بعد فرمایا کہ اس کا براہِ راست تعلق ایمان بالآخرۃ سے ہے. گویا تِل کی اوٹ میں پہاڑ ہے. تجزیہ تو کرو‘ یہ ہاتھ کی ذرا سی جنبش بتا رہی ہے‘ تمہارا ڈنڈی مارنے کا یہ تھوڑا سا عمل اس بات کی پوری غمازی کر رہا ہے کہ تمہیں آخرت کا یقین نہیں‘ جزاء و سزا کا یقین نہیں‘ خدا کے حاضر و ناظر ہونے کا یقین نہیں‘ خدا کے ’’بِکُلِّ شَیْء عَلِیْمٌ‘‘ ہونے کا یقین نہیں‘ یا خدا کی ہستی کا ہی یقین نہیں. بہرحال ایمان کا معاملہ عمل کے ساتھ جس قدر گہرا ربط لیے ہوئے ہے اس کی طرف یہاں اشارہ کر دیا گیا: اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓئِکَ اَنَّہُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ ۙ﴿۴﴾لِیَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ۙ﴿۵﴾یَّوۡمَ یَقُوۡمُ النَّاسُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ؕ﴿۶﴾ ’’کیا انہیں یہ گمان نہیں ہے کہ انہیں اٹھایا جائے گا اُس بڑے دن جس دن لوگ اپنے ربّ العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے؟‘‘
یہ ہے وہ بات جس کو یہاں دہرایا گیا کہ اپنے پیمانے پورے کیا کرو‘ تولتے ہوئے ڈنڈی سیدھی رکھا کرو. فرمایا: ذٰلِکَ خَیۡرٌ ’’یہ خیر ہے‘‘. اس میں بھی ایک اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے. ایسا نہیں کہ ہر شخص دوسرے کو چور سمجھے اور اس طرح ڈرتے ہوئے اور چوکس و چوکنا رہ کر اس سے معاملہ کرے. اس سے معاشرے کے اندر ایک عجیب کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ ہر شخص دوسرے کو چور‘ خائن اور بددیانت سمجھ رہا ہے. اسے یہ اندیشہ ہے کہ ابھی کہیں ڈنڈی مار لی جائے گی‘ ابھی کہیں ناپ تول میں کمی کر دی جائے گی‘ ابھی کہیں میری جیب کاٹ لی جائے گی‘ مجھ پر کوئی ڈاکہ ڈال دیا جائے گا. چنانچہ ناپ تول پورا رکھنے سے ایک طرف تو معاشرے میں اعتماد اور حسنِ ظن کی فضا ہوتی ہے. اور فرمایا: وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا ﴿۳۵﴾ٌ ’’اور انجامِ کار کے اعتبار سے بھی یہ طرزِ عمل بہت خوب ہے‘‘. تم سمجھتے ہو کہ ناپ تول میں کمی کر کے تم نے کچھ بچایا ہے اور چند سکّوں کی صورت میں زیادہ نفع کمایا ہے‘ حالانکہ ایسا نہیں‘ بلکہ تم مجرم ضمیر لیے ہوئے گھر کو لوٹے ہو. حقیقت میں خیر یہ نہیں‘ بلکہ خیر تو یہ ہے کہ پورے مطمئن قلب کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹو. اللہ تعالیٰ رازق ہے‘ تمہارا رزق اس کے ذمے ہے‘ وہ رزق تمہیں بہرطور بہم پہنچائے گا.