حقیقت یہ ہے کہ یہ انسان کے تمدّن اور اس کے علمی اور سائنٹیفک ارتقاء کے لیے ایک بڑی ہی اہم ہدایت تھی. اور یہ بات تسلیم کی گئی ہے‘ مستشرقین نے بھی مانا ہے‘ مغربی مفکرین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حقیقتاً دنیا میں توہمات کو ختم کرنے والا اور انسان کے عمل کو علم کی بنیاد پر استوار کرنے والا قرآن مجید ہے. زلزلے کے بارے میں ایک قدیم تصور یہ تھا کہ کوئی گائے ہے جس کے سینگوں پر یہ زمین رکھی ہوئی ہے‘ جب وہ وزن ایک سینگ سے دوسرے سینگ پر منتقل کرتی ہے تو زلزلہ آ جاتا ہے. اس کی کیا دلیل ہے؟ کیا سند ہے؟ کس بنیاد پر یہ بات کہی جا رہی ہے ؟ جب اس کی سند نہیں تو رد کر دو یا پھر سند لاؤ. جیسا کہ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا تھا: ’’اِیْتُوْنِیْ بِشَیْئٍ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ وَسُنَّۃِ رَسُوْلِہٖ حَتّٰی اَقُوْلَ‘‘. اگر کوئی چیز ماوراءِ عقل ہے یا ماوراءِ حس ہے تو اس کے لیے کوئی سند اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کے فرمودات سے لاؤ‘ ہم مان لیں گے. لیکن اگر نہ وہ سمع و بصر کی گرفت میں آنے والی شے ہو‘ نہ ہمارے حواس اس کی تصدیق کر سکتے ہوں‘ نہ وہ ہماری عقل کی میزان میں کسی طور سے پوری اترتی ہو اور نہ وحی کے علم میں اس کے لیے کوئی اساس اور بنیاد موجود ہو‘چاہے وہ وحی متلو ہو یا وحی غیر متلو‘ یعنی چاہے وہ قرآن ہو یا فرمودۂ نبیﷺ ہو‘ ان سب سے باہر کسی بات کو تسلیم کرنے کے لیے ہم تیار نہیں. یہ نقطۂ نظر اور انداز ہے جس سے سائنس کے سفر کا آغاز ہوا ہے . اور یہ مانا گیا ہے کہ منطق استقرائی (inductive logic) کے موجد مسلمان ہیں اور اس کی طرف متوجہ کرنے والا قرآن ہے: ؎
کھول آنکھ‘ زمیں دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ!
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!!
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!!
اسلام سے قبل علم کی بنیاد ارسطو کی استخراجی منطق (deductive logic) پرتھی‘اسی پر سارا دار و مدار تھا‘ اسی سے گتھیوں پر گتھیاں بن بھی رہی تھیں اور سلجھ بھی رہی تھیں‘ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ سلجھتی کم‘ اُلجھتی زیادہ تھیں. لیکن اسلام نے آ کر انسان کو اس منطق کی تنگ نائے سے نکالا اور اسے استخراج (deduction) کی بجائے استقراء (induction) کی طرف متوجہ کیا. دیکھئے‘ کس قدر عمدہ پیرایۂ بیان ہے : اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۳۶﴾ ’’یقینا کان اور آنکھ اور دل‘ ان سب کی اس سے باز پرس ہوگی‘‘.تمہیں یہ استعدادات اللہ نے کیوں عطا کی ہیں؟ سماعت دی ہے تاکہ سنو‘ بصارت دی ہے تاکہ دیکھو‘ اور تمہارے اندر تفکّر و تعقل کی قوتیں رکھی ہیں تاکہ غور و فکر اور سوچ بچار کرو. تمہیں استنباط‘ استدلال اور استنتاج کی صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں. ان سب کے بارے میں تم سے باز پرس ہو گی کہ انہیں معطل کر کے رکھ چھوڑا تھا اور توہمات پر اپنے موقف کی بنیاد رکھی تھی یا ان قوتوں اور استعدادات کو استعمال کیا تھا؟ یہ اللہ کی امانتیں ہیں‘ اللہ کی نعمتیں ہیں‘ ان کا استعمال کرو. ان کے بارے میں تم سے باز پرس ہو گی‘ محاسبہ ہو گا‘ پوچھ گچھ ہو گی. یہی وجہ ہے کہ یہ ساری نجومیوں کے انداز میں پیشین گوئیاں‘ یہ دست شناسی اور اسی نوع کے سارے معاملات‘ منجموں کے حساب کتاب اور زائچوں کی تیاری‘ ان کی اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب میں کوئی جگہ نہیں. نبی اکرمﷺ نے یہاں تک ارشادفرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی منجم یا کسی پیشین گوئی کرنے والے کی پیشین گوئی کی تصدیق کرتا ہے تو اس نے اس کی تکذیب کی جو میں لایا ہوں. یعنی میری لائی ہوئی تعلیم کچھ اور ہے‘ اس کی بنیاد علم پر ہے‘ وہ علم بالحواس بھی ہے‘ علم بالعقل بھی ہے اور علم بالوحی بھی ہے ‘ چنانچہ فرمایا : وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۳۶﴾ یعنی اس چیز کے پیچھے نہ پڑو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں‘جسے تم verify نہیں کر سکتے. ہاں ایسی چیزوں کا ایک دائرہ عالم غیب کے امور پر مشتمل ہے جو تمہارے حواس اور تمہاری عقل سے ماوراء ہیں‘ ان کی verification کے تم پابند نہیں ہو. لیکن ان کے ضمن میں جو قابل اعتماد ذریعہ ہے وہ وحی ہے. اس سے باہر جس چیز کے لیے کوئی علمی بنیاد نہ ہو اُس پر اپنا موقف قائم نہ کرو!