اس تمہید کے بعد اب آیئے کہ ہم اس سورۂ مبارکہ کی پہلی آیت پر اپنی توجہات کو مرتکز کریں. فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱﴾ ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول( ) سے آگے مت بڑھو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘ اور جان رکھو کہ اللہ (ہر چیز کا)سننے والا‘ جاننے والا ہے‘‘ اس کے معنی کیا ہیں!یہ کہ جیسے ایک مسلمان فرد‘ اپنی انفرادی حیثیت میں اللہ او راس کے رسول کے احکام کا پابند ہوتا ہے‘ اور ا س کے لیے مادر پدر آزادی کا کہیں وجود نہیں ہے‘ ویسے ہی ایک مسلمان معاشرہ اور ایک اسلامی ریاست بھی مادر پدر آزاد نہیں ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پابند ہے. اسلام میں آزادی کا تصور یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کے لیے ہر نوع کی دوسری غلامی سے نجات حاصل کر لی جائے. علامہ اقبال نے اسے یوں ادا کیا ہے ؎ 

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

اسی بات کو نبی اکرم نے اس طور سے تعبیر فرمایا: 

مَثَلُ الْمُؤْمِنِ وَمَثَلُ الْاِیْمَانِ کَمَثَلِ الْفَرَسِ فِی اٰخِیَّتِہٖ (۱
’’مؤمن اور ایمان کی مثال اس گھوڑے کی سی ہے جو ایک کھونٹے سے بندھا ہوا ہے‘‘. 

بڑی پیاری تمثیل ہے. ایک گھوڑا تو وہ ہے جس پر کوئی پابندی نہیں ہے‘ کوئی بندش نہیں ہے‘ وہ جدھر چاہے منہ مارے‘جدھر چاہے زقند لگائے‘ آزادی کے ساتھ جس طرف چاہے اور جہاں تک چاہے دوڑ لگائے. اس کے برعکس ایک گھوڑا وہ ہے جو ایک کھونٹے سے بندھا ہوا ہے. اب آپ فر ض کیجیے کہ دس گز کی ایک رسّی ہے جس سے وہ گھوڑا اپنے کھونٹے سے بندھا ہوا ہے. لہذا دس گز نصف قطر کے دائرہ کے اندر وہ گھوم پھر سکتا ہے. اس گھوڑے کو اتنی آزادی ہے کہ وہ اس دائرے کے اندر جس طرف چاہے پانچ سات گز کے فاصلہ پر جا کر بیٹھ جائے ‘ مزید آگے جانا چاہے تو چند قدم اور اٹھا لے‘ لیکن دس گز سے آگے ہرگز نہیں جا سکتا‘ اس لیے کہ وہ بندھا ہوا ہے بقول اقبال ؎

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بگل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے

تو یہ نہایت بلیغ تمثیل اور تشبیہ ہے جو نبی اکرم نے دی کہ ایک بندۂ مؤمن کی زندگی ایک پابند زندگی ہے. وہ اللہ اور رسول کے احکام اور اوامر و نواہی کا پابند ہے. اب ظاہر بات ہے کہ جب مسلمان فرد اللہ اور اس کے رسول کے احکام کاپابند ہے تو مسلمانوں کی ہیئت اجتماعیہ ان سے کیسے آزاد ہو جائے گی؟ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی ہر سطح پر ان احکام کی پابندی ضروری ہے. میں عرض کر چکا ہوں کہ عائلی زندگی اجتماعیت کی پہلی سطح ہے‘ معاشرتی زندگی اس سے بلند تر سطح ہے اور سیاسی زندگی یعنی ریاستی سطح پر ہمارے معاملات‘ یہ اجتماعیت کا بلند ترین تصور ہے. پس ہماری زندگی کی ہر سطح اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پابند ہے. اگر مسلمانوں کی ہیئت اجتماعیہ موجود ہے اور ان کی ایک آزاد خود مختار ریاست قائم ہے تو اس کے معاملات میں‘ اس کے دستور و آئین میں اور اس کے قوانین میں اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے تجاوز نہیں کیا جا سکتا. یہ ہے حقیقی مفہوم اس سورۂ (۱) مسند احمد‘ کتاب باقی مسند المکثرین‘ باب مسند ابی سعید الخدری‘ ح ۱۱۱۰۰ مبارکہ کی پہلی آیت کے اس حصہ کا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہ ’’اے اہل ایمان! مت آگے بڑھو اللہ اور اس کے رسول سے‘‘.یہاں جو لفظ ’’ لَا تُقَدِّمُوْا‘‘ آیا ہے اس کا لفظی ترجمہ ہو گا ’’مت آگے بڑھاؤ‘‘. اس سے آگے لفظ ’’اَنْفُسَکُمْ‘‘ کہ ’’اپنے آپ کو آگے نہ بڑھاؤ‘‘ یا لفظ ’’رَاْیَـکُمْ‘‘ کہ ’’اپنی رائے کو آگے مت بڑھاؤ‘‘ محذوف ماننا پڑے گا. بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ’’اللہ اور اس کے رسول سے‘‘ آیت کا یہ حصہ دونوں محذوف الفاظ کے ساتھ جڑا رہے گا. مفہوم یہ ہو گا کہ یہ ایک دائرہ ہے. تمہاری زندگی خواہ انفرادی معاملات سے متعلق ہو‘ خواہ اجتماعی زندگی کے مسائل سے تعلق رکھتی ہو‘ اس دائرے کے اندر اندر محدود رہنی چاہیے.

اگر غور کیا جائے تو یہ اسلامی ریاست کی سطح پر اس کی حیاتِ اجتماعی اور دستورِ اساسی کا اصل الاصول ہے‘ یا یوں کہیے کہ اس کی پہلی دفعہ اس آیت سے معین ہوتی ہے. اس لیے کہ ریاست کے ضمن میں سب سے پہلی بحث یہ آئے گی کہ حاکمیت 
(Sovereignty) کس کی ہے؟ اور اسلامی ریاست میں حاکمیت ِ مطلقہ صرف اللہ کی ہے بقول علامہ اقبال مرحوم ؎

سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری

لہذا مسلم معاشرتی نظری (Muslim Social Thought) یا مسلم سیاسی خیال (Muslim Political Thought) میں اساسی و بنیادی اور اہم ترین بات یہ ہے کہ حاکمیت ِ مطلقہ صرف اللہ کے لیے ہے. قرآن مجید میں اس بات کو متعدّد مقامات پر مختلف اسالیب سے بیان کیا گیا ہے. سب سے زیادہ معروف الفاظ سورۂ یوسف کے ہیں : اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ِ یعنی ’’حکم دینے کا اختیارِ مطلق اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں ہے‘‘. اسی بات کو سورۃ الکہف میں منفی انداز میں یوں فرمایا: وَّ لَا یُشۡرِکُ فِیۡ حُکۡمِہٖۤ اَحَدًا ﴿۲۶﴾ ’’اور وہ اپنے حکم (کے اختیار) میں کسی کو شریک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے‘‘ البتہ یہ ضرور ہے کہ اللہ کی حاکمیت کے اصول کا انسانی معاشرہ میں عملی طو رپر جو نفاذ ہو گا وہ رسول اللہ کی اطاعت کے واسطہ سے ہو گا. اس لیے کہ اللہ تو غیب کے پردوں میں ہے‘ اس کا حکم سب لوگوں کو براہِ راست نہیں پہنچتا بلکہ اس نے اپنے احکام لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنی حکمت ِ بالغہ سے نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری فرمایا جس کی آخری کڑی ہیں خاتم النبیین سید المرسلین جناب محمد رسول اللہ لہذا حاکمیت الٰہیہ کی جو عملی تشکیل ہو گی وہ سورۃ النساء کی اس
آیت کے حوالے سے ہو گی کہ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ (آیت۵۹’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول ( ) کی اور تم میں سے جو صاحب امر ہیں ان کی‘‘. اس آیۂ مبارکہ میں ’’اَطِیْعُوْا‘‘ جو صیغۂ امر ہے‘ دو مرتبہ آیا ہے ‘ اللہ کے ساتھ بھی اور رسول کے ساتھ بھی.اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول ( ) کی‘‘ لیکن آگے جب اس اطاعت کی زنجیر کی تیسری کڑی آئی تو فعل امر ’’اَطِیْعُوْا‘‘ کو لوٹایا نہیں گیا بلکہ فرمایا گیا : وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ْ ’’اور ان کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں‘‘ اس اسلوب سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت بالذات اور مطلق ہے‘ جبکہ ’’وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ‘‘ کی اطاعت مشروط ہو گی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے دائرہ کے اندر اندر حکم دے سکتے ہیں‘ اس کے باہر نہیں. اس کے لیے نبی اکرم نے دائمی طور پر یہ اصل الاصول معین فرما دیا ہے کہ : لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ (۱یعنی کسی ایسے معاملہ میں مخلوق میں سے کسی کے حکم کی اطاعت نہیں کی جائے گی جس سے خالق کی معصیت یعنی اللہ کی نافرمانی لازم آ رہی ہو.
پس قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف اسالیب سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے جو احکام دیے گئے ہیں‘ ان سب کو جمع کیا جائے تو اس کا جو حاصل نکلتا ہے اسے بڑی جامعیت اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ سورۃ الحجرات کی پہلی آیت میں بایں الفاظِ مبارکہ بیان فرما دیا گیاہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہ ’’اے اہل ایمان! مت آگے بڑھو اللہ سے اور اس کے رسول( ) سے‘‘.

یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ بڑے دستوری‘ آئینی اور قانونی الفاظ ہیں اس اصول الاصول کی تعیین کے لیے انفرادی وا جتماعی زندگی کے تمام امور و مسائل اور معاملات اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے دائرے کے اندر اندر رہیں گے‘ اس سے تجاوز نہیں ہوگا. البتہ اس دائرے کے اندر رہتے ہوئے حسبِ حالات اور حسبِ موقع اپنی مرضی استعمال کرنے کا حق حاصل ہے. میں یہ بات اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ اہل لغت و نحو کے تمام کے تمام اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’’امر‘‘ کے مقابلہ میں ’’نہی‘‘ میں زیادہ زور 
(emphasis) ہوتا ہے. یعنی ایک یہ کہ حکم دیا جائے کہ ’’اللہ اور (۱) المعجم الکبیر للطبرانی، عن عمران بن حصین، رقم الحدیث 14819، اسنادہ حسن اس کے رسول ( ) سے آگے مت بڑھو‘‘ تو یہ جو دوسرا انداز ہے اس میں تاکید کا رنگ زیادہ غالب ہے.

پھر یہ کہ اگر غور کریں تو نظر آئے گا کہ خالص دستوری اعتبار سے یہ الفاظ نہایت جامع 
(comprehensive) ہیں. یہ الفاظ اس طریقہ سے اس بات کا احاطہ کر لیتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے جو واضح احکام ہیں ان سے تجاوز نہیں کیا جا سکے گا‘ ان کے اندر اندر آزادی حاصل ہے‘ جیسے گھوڑے کی مثال کے ضمن میں عرض کیا گیا تھا کہ کھونٹے سے بندھے ہوئے گھوڑے کو بس اتنی آزادی ہے کہ وہ اپنی رسّی کی مقدار کے مطابق ایک معین دائرے کے اندر اندر گھوم پھر سکتا ہے اور جس سمت چاہے اور رسّی کی حدود میں رہتے ہوئے جتنے فاصلے پر چاہے جاکر بیٹھ سکتا ہے. لہذا سورۃ الحجرات کے ان الفاظ کے ذریعے سے ایک دائرہ کھینچ دیا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی حیثیت ’’حدود اللہ‘‘ کی ہے. ان سے تجاوز نہیں کیا جا سکتا. البتہ اس دائرے کے اندر اندر تمہیں اختیار حاصل ہے کہ اپنے ریاستی‘ مملکتی اور انتظامی امور اپنی صوابدید سے طے کر سکتے ہو‘ اپنے قوانین بنا سکتے ہو.