لیکن اس کے لیے ایک اصل الاصول سورۃ الشوریٰ میں بیان کر دیا گیا ہے جسے اختیارات کے دائرے میں بہرحال ملحوظ رکھناہو گا. وہ اصل الاصول یہ ہے کہ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ْ (آیت ۳۸’’اور (اہل ایمان) اپنے معاملات باہمی مشورے سے چلاتے ہیں‘‘. یعنی اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے دائرے کے اندر اندر بھی کسی فرد ِواحد‘ کسی خاندان‘ کسی طبقہ یا کسی گروہ کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ قوتِ نافذہ پر قابض ہو کر اس طرح بیٹھ جائے کہ گویا وہ اصل حکمران ہیں اور بقیہ لوگ صرف ان کی رعیت ہیں کہ جس طرح چاہیں ان پر اپنی مرضی ٹھونس دیں. اسلام اس نوع کےAuthoritarianism اور Totalitarianism کی یعنی کسی فرد‘ طبقے یا گروہ یا خاندان میں اختیارات کے ارتکاز کی ہرگز اجازت نہیں دیتا. اسلامی ریاست کے معاملات کو چلانے کے لیے شورائیت کا نظام ازروئے قرآن مجید لازم ہے. سورۃ الشوریٰ کی اس آیت میں یہ اصل الاصول اور اسلامی نظامِ حیات کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ اس میں وہ تمام اجتماعی امور جن کے متعلق قرآن و سنت میں کوئی صریح حکم یا ہدایت نہ ہو‘ مشورے سے انجام پاتے ہیں. البتہ یہاں شوریٰ کی کوئی خاص شکل معین نہیں کی گئی ہے اور اس کے بارے میں ہمیں قرآن میں کسی دوسرے مقام پر بھی کوئی تفصیلی نقشہ نہیں ملتا کہ نظامِ حکومت کیا ہو! صدارتی ہو یا پارلیمانی ہو! وحدانی ہویا کہ وفاقی ہو! اور اگر عام انتخابات ہوں تو اس کے لیے ووٹ کا حق کسے ہے‘ کسے نہیں ہے؟ یہ تمام معاملات انتظامی امور ہیں. تمدن کے ارتقاء کے اعتبار سے جس سطح پر جو معاشرہ ہو گا‘ اس کی مناسبت سے لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ کے اصول کے پیشِ نظر تمام معاملات اس دائرے کے اندر اندر رہیں جو کتاب و سنت نے کھینچ دیا ہے اور یہ معاملات باہمی مشورے سے انجام پائیں. نظامِ شورائیت کی کوئی معین شکل نہ دینے کی یہ حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام کے دائمی و ابدی اوامر و نواہی اور احکام ساری دنیا کے لیے‘ ہر دور اور ہر زمانہ کے لیے اور ہمیشہ کے لیے ہیں‘لہذا شوریٰ کا ایک خاص طریقہ ہر دَور‘ ہر سوسائٹی اور ہر تمدن کے لیے یکساں موزوں نہیں ہو سکتا. البتہ شوریٰ کا جو قاعدہ آیت کے اس حصہ میں بیان کیا گیا ہے کہ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ْ۪ ’’(اہل ایمان) اپنے کام باہم مشاورت سے چلاتے ہیں‘‘یہ قاعدہ تین باتوں کا متقاضی ہے. ایک یہ کہ معاملہ جن لوگوں کے اجتماعی کام سے متعلق ہو‘ ان سب کو مشورے میں شریک ہونا چاہیے‘ خواہ وہ براہِ راست شریک ہوں‘ یا اپنے منتخب کردہ نمائندوں کے توسط سے ہوں. دوسرے یہ کہ مشورہ آزادانہ‘ بے لاگ اور مخلصانہ ہونا چاہیے. دباؤ یا لالچ کے تحت مشورہ لینا مشورہ نہ لینے کے برابر ہے. تیسرے یہ کہ جو مشورہ اہل شوریٰ کے اتفاق رائے سے دیا جائے یا جسے ان کی اکثریت کی تائید حاصل ہو‘ اسے تسلیم کیا جائے اور اس کے مطابق حکومت اور اجتماعیت کے تمام معاملات چلائے جائیں.

اب آپ غور کیجیے کہ یہ مملکت خداداد پاکستان ہم نے قائد اعظم محمد علی جناح کے الفاظ میں اس لیے حاصل کی تھی کہ ہم ایک آزاد و خود مختار خطہ اس مقصد کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام کے جو ابدی اصول ہیں ہم اس مملکت کو ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے ایک تجربہ گاہ بنائیں‘ اسے ایک نمونہ کا اسلامی معاشرہ اور نمونہ کی ایک اسلامی ریاست بنا کر پوری دنیا کے سامنے پیش کریں.

الحمد للہ ہمارے یہاں ’’ قراداد ِمقاصد‘‘ میں یہ بات طے ہو گئی ہے کہ ’’حاکمیت ِ مطلقہ اللہ کی ہے‘‘. ہم نے پہلی بار اس اصول سے دنیا کو روشناس کرایا اور یہ بات پیشِ نظر رکھیے کہ تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ کسی آزاد و خود مختار اور ذمہ دار اسمبلی نے (وہ ہماری دستور ساز اسمبلی تھی) اس طریقہ سے ایک اجتماعی فیصلہ کا اعلان و اظہار کیا کہ ریاست میں حاکمیتِ مطلقہ اللہ کی ہے. اس کے متعلق ہم یہ کہہ سکتے ہیں 
کہ ریاست کی سطح پر یہ گویا کلمۂ شہادت تھا : اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ جس کا اعلان و اظہار قراردادِ مقاصد کے ذریعے سے پوری دنیا کے سامنے ہوا. اور میں آج خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں اُس شخص یا اُن اشخاص کو جنہوں نے اس دفعہ کے الفاظ معین کیے ہیں جو ہمیشہ سے دستور پاکستان کے رہنما اصولوں میں شامل رہی ہے. 

".No legislation will be done repugnant to the Quran and the Sunnah" 
’’کوئی قانون سازی نہیں کی جائے گی جو قرآن اور سنت سے متخالف اور متصادم ہو‘‘.

میں نہیں جانتا کہ ان کے پیشِ نظر سورۃ الحجرات کی یہ آیۂ مبارکہ تھی یا نہیں‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس دفعہ کے الفاظ کامل ترین نمائندگی کرتے ہیں اس آیۂ مبارکہ کے الفاظ کی 
لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ٖ ’’مت آگے بڑھو اللہ اور اس کے رسول سے‘‘. 

اللہ تعالیٰ کا فرمان‘ قرآن مجید ہے. اگر آپ اس سے آگے نہیں بڑھتے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ اللہ سے آگے نہیں بڑھے. اور رسول اللہ کی سنت آپؐ کے افعال وا قوال پر مشتمل ہے. اگر ہم اس سے آگے نہ بڑھنے کا اقرار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے رسول اللہ کے احکام کے دائرہ کے اندر رہنے کا عزم کیا ہے میرے نزدیک یہ دفعہ اسلامی دستور کی بنیادی شرط کو بتمام و کمال اور باحسن وجوہ پورا کرتی ہے‘ بشرطیکہ یہ دفعہ محض رہنما اصول‘ 
(Directive Principles) میں نہ ہو بلکہ نافذ العمل دفعات‘ (Operative Clauses) میں شامل ہو. بدقسمتی سے ہماری کوتاہی یہ رہی ہے کہ اس کو تاحال نافذ العمل دفعہ بنانے کے بجائے صرف رہنما اصولوں میں رکھا گیا ہے. البتہ موجودہ دور میں وفاقی شرعی عدالت کے قیام کی صورت میں یوں سمجھئے کہ اس دفعہ پر عمل کا کسی نہ کسی درجے میں آغاز ہوا ہے (۱اور دورِ جدید میں اسلامی ریاست کے تقاضوں میں سے ایک بنیادی تقاضے کو‘ ناقص شکل ہی میں سہی‘ پورا کرنے کا کام شروع ہو گیا ہے. اللہ کرے کہ وہ دن جلد از جلد پاکستان پر طلوع ہو کہ اسلامی ریاست کے جو بھی تقاضے ہیں ان پر بھرپور انداز اور عزم بالجزم سے اقدامات شروع ہوں.

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱﴾یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا (۱) واضح رہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب کا یہ خطاب پاکستان ٹیلی ویژن پر ۸۲.۱۹۸۱ء کے دوران نشر ہوا تھا. (مرتب) لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۲﴾اِنَّ الَّذِیۡنَ یَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَہُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ لِلتَّقۡوٰی ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۳﴾اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴﴾وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ ﴿۶﴾ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۙ﴿۷﴾ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ نِعۡمَۃً ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۸﴾ 
’’اے ایمان والو! مت بلند کرو اپنی آوازوں کو نبیؐ کی آواز پر اور مت گفتگو کرو انؐ سے بلند آوازی کے ساتھ جیسے تم باہم ایک دوسرے سے گفتگو کر لیتے ہو‘ مبادا تمہارے تمام اعمال رائیگاں ہو جائیں اور تمہیں اس کا شعور تک نہ ہو. یقینا وہ لوگ جو اپنی آوازوں کو اللہ کے رسول ( ) کے سامنے پست رکھتے ہیں‘ وہی ہیں کہ جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے. ان کے لیے بخشش بھی ہے اور بہت بڑااجر بھی. بلاشبہ وہ لوگ جو اے نبی ( ) آپؐ ‘ کو پکارتے ہیں حجروں کے باہر سے‘ ان میں اکثر ناسمجھ ہیں.اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپؐ خود ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ ان کے لیے کہیں بہتر تھا. اور اللہ بخشنے والا‘ رحم فرمانے والا ہے. اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی اہم خبر لے کر آئے تو چھان بین کر لیا کرو‘ مبادا تم نادانی میں کسی قوم کے خلاف اقدام کر بیٹھو اور پھر تمہیں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے اور جان رکھو کہ تمہارے مابین اللہ کے رسول ( ) موجود ہیں. اگر وہؐ تمہارا کہنا اکثر معاملات میں ماننے لگیں تو تم خود مشکل میں پڑ جائوگے‘ لیکن اللہ نے تو ایمان کو تمہارے نزدیک بہت محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں کھبا دیا ہے‘ اور تمہارے نزدیک بہت ناپسندیدہ بنا دیا ہے کفر کو بھی اور نافرمانی کو بھی اور معصیت کو بھی. یہی ہیں وہ لوگ جو اصل میں کامیاب ہونے والے ہیں. یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے اور مظہر ہے اس کی نعمت کا.اور اللہ سب کچھ جاننے والا‘ کمال حکمت والا ہے‘‘.