پھر یہ کہ درحقیقت مسلمانوں کی تہذیب اور اس کے تمدن کے جو اصل خدوخال ہیں وہ درحقیقت اسی اتباعِ رسول سے وجود میں آئے ہیں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ ہر معاشرے کو اس کی ضرورت ہوتی ہے. وہ جو علامہ اقبال نے ایک خاص پس منظر میں کہا ہے کہ ؏ ’’خوگر پیکر محسوس تھی انسان کی نظر‘‘ تو آپ اسے چاہے انسان کی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری شمار کریں ‘ لیکن یہ انسان کی عالمگیر (universal) کمزوری ہے کہ کوئی دل آویز اور دلنواز شخصیت ایسی ہو کہ اگر اس سے محبت اور قلبی لگاؤ ہے تو اس معاشرے کے افراد آپس میں ایک دوسرے سے قریب رہیں گے‘ ان کے دلوں کی دھڑکنوں میں ہم آہنگی ہو گی.انسان کی یہ ضرورت ہے کہ اس کے قلبی لگاؤ کے لیے ایسی شخصیت موجود ہو جو معاشرے کی شیرازہ بندی میں نقطۂ ماسکہ کا کردار ادا کرے. اسے آپ ہیرو کہیں‘ آپ اسے کسی دوسرے اعلیٰ لقب سے پکاریں. لیکن واقعہ یہ ہے کہ تمام معاشروں کو یہ ہیرو باقاعدہ گھڑنے پڑتے ہیں ‘ یہ شخصیتیں تراشنی پڑتی ہیں. اس لیے کہ یہ ان کی ضرورت ہے. جذباتی وابستگی کے لیے ایک ایسا مرکز لازم ہے.

کتنی بڑی خوش قسمتی ہے کہ امت محمد (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کی کہ یہاں کوئی مصنوعی شخصیت تراشنے اور گھڑنے کی ضرورت نہیں ہے. دوسروں کو تو مصنوعی شخصیتیں گھڑنی پڑتی ہیں اور ان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ ہر دور میں انہیں ایک نئی شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے. اس بات کی وضاحت کے لیے علامہ اقبال کا یہ مصرع بڑا پیارا ہے کہ ؏ ’’می تراشد فکرِ ما ہر دم خداوندے دگر!‘‘ لیکن ہمارے پاس نبی اکرم کی محبوب‘ دلنواز‘ دلآویز‘ من موہنی‘ معراجِ انسانیت پر فائز شخصیت‘ جن کی سیرت و 
کردار پر کوئی دشمن بھی کہیں کوئی انگلی نہ رکھ سکا‘ انسانِ کامل‘ انسانی عظمت کا مظہر اتم شخصیت موجود ہے. آپ کی شخصیت ہماری ملی شیرازہ بندی کے لیے مرکزی شخصیت ہے. آپؐ کے ساتھ دلی محبت‘ آپؐ کا ادب‘ آپؐ کی تعظیم‘ آپؐ کا احترام‘ آپؐ سے عقیدت‘ اگر اسلامی معاشرہ میں ان تمام امور کا جذبہ موجود رہے گا تو معاشرہ بنیانِ مرصوص بنا رہے گا. آپ وہ شخصیت ہیں کہ جن کے متعلق بالکل صحیح کہا گیا ہے ؎

ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا!

آپؐ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں علامہ اقبال نے بالکل درست کہا ہے کہ ؎

بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بولہبی است

اب اگر ہم ان دونوں کو جمع کریں تو ایک ہے ہماری ہیئت اجتماعیہ یا حیاتِ ملی کے لیے دستوری‘ آئینی اور قانونی بنیاد اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی اطاعت. یہ گویا ایک دائرہ ہے اور اس دائرے کے درمیان ہے ایک انتہائی دلنواز اور دلآویز شخصیت‘ بقول شاعر ؏ ’’نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز‘‘ کا مصداقِ کامل اس کے لیے اگر ’’مرکز ملت‘‘ کی اصطلاح اختیار کی جائے تو مجھے اعتراض نہیں‘ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ہمارا یہ مرکز دائم و قائم ہے. یہ کسی بھی دور میں بدلنے والا نہیں ہے‘ بلکہ یہ تو ہمیشہ ہمیش کے لیے تاقیامِ قیامت جناب محمد رسول اللہ ہی کی شخصیت ہے جو ’’مرکز ملت‘‘ کے مقام پر فائز رہے گی اور حضور ہی کو معیارِ مطلق بنانا ہو گا.مختلف مسلمان معاشروں اور مختلف مسلمان ملکوں میں یقینا جب رہنما اور مصلح سامنے آتے ہیں تو ہمیں ان سے محبت و عقیدت ہوتی ہے. اگر ترکوں کے دلوں میں مصطفی کمال کی عظمت ہے تو ٹھیک ہے‘ وہ ان کے محسن تھے. اسی طرح پاکستانی مسلمانوں کے دلوں میں اگر قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی محبت ہے تو درست ہے‘ وہ ہمارے محسن ہیں. لیکن ہمیشہ کے لیے اور جو ابدی معیار قائم و دائم رہے گا وہ شخصیت جناب محمد رسول اللہ کی ہے. اگر ہم نے اس معیار کو مجروح کر دیا تو یہ جان لیجیے کہ پھر مسلمانوں کی حیاتِ ملی کی ایک اہم اساس منہدم ہو جاتی ہے. یہ ہمارا معیار ہے جو مستقل ہے‘ دائم و قائم ہے. یہ نہ صرف ہماری تہذیبی و ثقافتی ہم آہنگی کی ضمانت دیتا ہے‘ بلکہ اس تہذیبی و ثقافتی ہم رنگی‘ ہم آہنگی اور یکسانیت کے ساتھ تہذیب و ثقافت کا ایک تسلسل و تواتر ہے جو چودہ سو سال سے جاری و ساری ہے. وضع قطع اور لباس کے حدود و قیود اور نشست و برخاست کے انداز‘ حضور کے اُسوۂ حسنہ کے اتباع سے مسلمانوں میں فروغ پذیر ہوئے. یہی وجہ ہے کہ کسی مسلمان چاہے مشرق بعید کے رہنے والے ہوں یا مغربِ بعید کے‘ غرض دنیا کے کسی خطے میں بسنے والے مسلمان ہوں‘ ان سب کے درمیان ایک مناسبت‘ ہم رنگی‘ اور یکسانیت نظر آتی ہے. یہ اسی لیے ہے کہ ان کے لیے مرکزی شخصیت ہمیشہ ہمیش کے لیے جناب محمد رسول اللہ کی ہے.