ان آیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور کی حیاتِ طیبہ کے دوران کچھ واقعات ایسے ہوئے کہ جن میں لوگوں سے کچھ بے احتیاطی ہوئی‘ جس سے حضور کا بلند‘ ارفع و اعلیٰ مقام مجروح ہونے کا کچھ اندیشہ ہوا. کسی نے کبھی اپنی آواز کو حضور کی آواز سے کچھ بلند کر لیا اس پر فرمایا گیا کہ مسلمانو!ہرگز ایسا نہ کرنا. یہ وہ عمل ہے کہ تمہیں محسوس بھی نہیں ہو گا لیکن یہ اتنی بڑی گستاخی شمار ہو گی کہ تمہارے پچھلے کیے کرائے سارے اعمال رائیگاں ہو جائیں گے‘ تمہاری ساری نیکیاں اکارت جائیں گی پھر مثبت انداز میں بھی فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی تعلیم اور اس کی افزائش کے لیے انہی حضرات کے دلوں کو جانچ کر اور پرکھ کر منتخب فرما لیا ہے کہ جو اپنی آوازوں کو نبی کی آواز کے سامنے پست رکھتے ہیں.اس معاملہ میں باہر سے آنے والے بدوؤں سے کچھ بے احتیاطی ہو جاتی تھی. جیسے کتب سیرت میں واقعہ ملتا ہے کہ بنی تمیم کے کچھ لوگ آئے اور جیسا کہ وہاں کے بدوؤں کا ایک مزاج تھا‘ انہوں نے مسجد نبوی میں آ کر پکارنا شروع کر دیا ’’یا محمّد اُخرج علینا‘‘ یعنی ’’اے محمد( ) باہر آیئے‘‘ اس پر ان کو ٹوک دیاگیا‘لیکن ساتھ ہی فرما دیا گیا کہ یہ لوگ ناسمجھ ہیں. ان کی نیت میں خلل نہیں ہے‘ یہ ان کے مزاج کا اکھڑ پن ہے جو ان کی طبیعت ِ ثانیہ بن گیا ہے‘ اسی کا یہ ظہور ہے‘ لہذا ٹوکنے کے ساتھ ہی فرمایا گیا کہ : وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾ ’’اللہ بخشنے والا ہے‘ رحم فرمانے والا ہے‘‘ لیکن احتیاط کی ضرورت ہے.

اس کے بعد آیت ۶ میں جو بات آئی ہے‘ اس پر ان شاء اللہ بعد میں گفتگو ہو گی. گزشتہ نشست میں مَیں نے اس سورۂ مبارکہ کے مضامین کو تین موضوعات میں تقسیم کیا تھا. چھٹی آیت کا تعلق ان معین موضوعات میں سے دوسرے موضوع سے ہے‘ لیکن آیات ۷ اور ۸ میں وہ اہم ترین بات آئی ہے جو
آج کی گفتگو سے متعلق ہے. فرمایا: وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ’’اچھی طرح جان لو کہ تمہارے مابین ’’جو محمد کی شخصیت ہے وہ) اللہ کے رسول ہیں‘‘ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ یہ محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب ہیں‘ لیکن تمہیں آپؐ ‘کی جو شان ہر آن ملحوظ رکھنی چاہیے وہ یہ حقیقت ہے کہ حضور اللہ کے رسول ہیں. اب فرض کیجیے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ یہ سمجھ کر کہ حضور میرے بھتیجے ہیں‘ آپؐ کے سات اس طرح کا معاملہ کریں جیسے ایک بڑا اپنے چھوٹے سے کرتا ہے تو یہاں حضور کی رسول کی حیثیت کے مجروح ہونے کا اندیشہ تھا. لہذا فرمایا گیا: وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ’’اور جان لو کہ تمہارے مابین اللہ کے رسول ہیں‘‘. ان کے ساتھ وہ معاملہ کرو جو ایک اُمتی کو رسول کے ساتھ کرنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ حضور کا ادب و احترام اور آپ کی تعظیم و توقیر کو ہر آن ملحوظ رکھو اس ضمن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا یہ نقشہ خاص طور پر سامنے لایا گیا کہ اللہ نے تمہارے دلوں میں ایمان کو راسخ اور جاگزیں کر دیا ہے‘ اسے تمہارے دلوں میں کھپا دیا ہے‘ تمہارے دلوں کو ایمان سے مزین کر دیا ہے اور کفر و فسق سے اورمعصیت سے تمہیں طبعاً نفرت ہو چکی ہے. اس اسلوب میں جہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح ہے‘ وہاں یہ ترغیب و تشویق کا بھی انداز ہے کہ اس معاملے میں ذرا احتیاط ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے کہ حضور کی رسول اللہ ہونے کی حیثیت کسی حال میں بھی نظر انداز نہ ہونے پائے.