احادیثِ مبارکہ کے معاملے میں خصوصی احتیاط

اب اس ضمن میں ایک بات مزید نوٹ کر لیں. زیر مطالعہ آیت سے اگلی آیت (نمبر۷) جس کا ہم مطالعہ کر چکے ہیں‘ اس میں خاص طور پر نبی اکرم کے مقام کو بڑی وضاحت سے سامنے لایا گیا ہے کہ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ساتویں آیت کے اس جزو کا چھٹی آیت سے بھی ربط ہے. وہ اس پہلو سے کہ تمام اطلاعات اور تمام خبروں کی تحقیق و تفتیش ہونی چاہیے‘ لیکن جو بات خاص طور پر نبی اکرم کی طرف منسوب ہورہی ہو‘ چاہے وہ کتنی چھوٹی سے چھوٹی بات ہی کیوں نہ ہو‘ ہر مسلمان کے لیے وہ بات اس اعتبار سے بہت بڑی ہے کہ یہ حضور کے فرمان کے طور پر پیش کی جارہی ہے. اسی سے تو ہماری ساری شریعت اور ہمارے تمام قوانین کا ڈھانچہ بنے گا اور اسی پر ہمارے تمدن اور ہماری تہذیب و ثقافت کی تشکیل ہو گی‘ لہذا اس معاملہ میں سہل انگاری‘ صرف نظریا تساہل عام معاملات کے مقابلے میں بہت زیادہ خطرناک نتائج پیدا کر سکتا ہے.

یہ ہے وہ اہم بات جس کے تحت ہمارے محدثین کرام رحمہم اللہ نے احادیث کی تحقیق و تفتیش میں 
(۱) صحیح مسلم کتاب المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع اپنی پوری پوری زندگیاں لگا دیں. اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے کہ انہوں نے حضور کی احادیث بیان کرنے والے راویوں کے حالات کی بھی پوری چھان بین کی او رجرح و تعدیل کے اصول معین کیے. اس طرح اسماء الرجال کا ایک بہت بڑا علم اور ایک بہت بڑا فن وجود میں آیا. ہزاروں راویانِ احادیث کی زندگیوں کے بارے میں تحقیق ہوئی‘ پھر ان کے حالات مدون کر کے ضبطِ تحریر میں لائے گئے‘ پھر ان کی درجہ بندی کی گئی. اگر کسی شخص نے نبی اکرم کی طرف منسوب کر کے کوئی بات کہی تو اسے محض اس بنیاد پر قبول اور تسلیم نہیں کر لیا جائے گا کہ یہ بات ’’قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ کے الفاظ سے بیان کی گئی ہے‘ بلکہ اس کی پوری تحقیق و تفتیش اور پوری چھان بین ہو گی‘ روایتاً بھی ہو گی اور درایتاً بھی.ان راویوں کے حالات پر بھی جرح ہو گی جواس کو بیان کرنے والے ہیں . حدیث میں جتنے بھی واسطے اور links ہیں‘ ان کی ثقاہت اور ان کے تدین کی بھی تحقیق ہو گی. پھر حدیث کے متن پر درایتاً بھی غور کیا جائے گا. یہ سارے کا سارا نظام درحقیقت اسی حکم کے تحت ہے کہ ’’اے اہل ایمان! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی اہم خبر لے کر آئے تو تحقیق اور تفتیش کر لیا کرو‘‘.