دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ : وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ’’خود اپنے آپ کی عیب چینی نہ کیا کرو‘‘ جو تنگ نظر رکھنے والا انسان ہوگا‘ جس کا اپنا ظرف چھوٹا ہو گا‘ اس میں یہ بات نظر آئے گی کہ وہ دوسروں کے عیب تلاش کرے گا‘ عیب چینی کرے گا‘ عیب جوئی کرے گا ‘ ان کی کسی برائی کو ان کے منہ پر دے مارے گا‘ دوسروں کی توہین کرنے کو اپنا وطیرہ بنا لے گا. اب یہاں دیکھئے کہ کیسا پرتأثیر اسلوب اختیارفرمایا گیا ہے : وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ْ کہ تم اگر کسی مسلمان کی عیب جوئی کر رہے ہو‘ اس پر عیب لگا رہے ہو‘ اس کے عیب ظاہر کر رہے ہو تو وہ تمہارا اپنا مسلمان بھائی ہے. گویااس طرح تم نے خود اپنے آپ کو عیب لگایا ہے. اب اس سے زیادہ مؤثر اپیل کا انداز اور دلنشیں پیرایہ ممکن نہیں ہے. جیسے ایک مرتبہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے ماں باپ کو گالیاں مت دیا کرو‘‘. اس پر کسی نے عرض کیا کہ ’’کون شخص اپنے ماں باپ کو گالی دے گا؟‘‘ حضور نے جواباً ارشاد فرمایا’’اگر تم کسی کے ماں باپ کو گالی دو گے اور وہ پلٹ کر تمہارے ماں باپ کو گالی دے گا تو درحقیقت یہ تم نے خود اپنے والدین کو گالی دی‘‘. اگر یہ بات دل کی گہرائی میں اتر جائے تو وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ کی بلاغت و حکمت واضح ہو کر سامنے آجائے گی.