البتہ یہ بات ذہن میں رکھئے کہ یہ تینوں چیزیں وہ ہیں جن میں کچھ استثناء ات ہیں. بعض قرائن اور ظاہری شواہد کی بنیاد پر کسی کے متعلق بدگمانی دل میں پیدا ہو سکتی ہے. ایسی صورت میں ضروری ہو گا کہ جلد از جلد اس کے متعلق اپنی استعداد کے مطابق تحقیق کر لی جائے. اسی طرح حکومت تفتیش اور صحیح صورت حال معلوم کرنے کے لیے تجسس کر سکتی ہے. وہ یہ جاننے کے لیے تجسس کا ایک مستقل شعبہ اور محکمہ قائم کر سکتی ہے کہ ملک میں غیر ملک کے جاسوس تو سرگرم عمل نہیں ہیں. علاوہ ازیں وہ خود بھی دوسرے ممالک میں جاسوسی کا کوئی نظام قائم کرے تو یہ غلط نہ ہو گا‘ کیونکہ اس مقصد کے پیچھے ملک کی سلامتی کی مصلحت کارفرما ہوتی ہے. مزید یہ کہ کسی خاندان میں آپ اپنی اولاد کا رشتہ کرنا چاہتے ہیں‘ یا کسی خاندان سے آپ کے بیٹے بیٹی کے لیے رشتہ آیا ہے تو آپ صحیح معلومات حاصل کرنے کے لیے تجسس یا بالفاظِ دیگر تحقیق و تفتیش کر سکتے ہیں.

اسی طرح اس نیت اور ارادے کے بغیر کہ اپنے کسی بھائی کی عزت پر حملہ کرنا مقصود ہو‘ اگر کسی مسلمان کی کوئی برائی بیان کرنے کی ناگزیر ضرورت پیش آ جائے تو اس کا شمار غیبت میں نہیں ہو گا. مثلاً حضور نے فرمایا کہ اگر آپ کے کسی بھائی کا کہیں رشتہ طے پا رہا ہے اور وہاں کی کوئی غیر مناسب بات آپ کے علم میں ہے اور آپ اپنے اس دینی بھائی کی خیر خواہی کے جذبے کے تحت اسے وہ بات بتا رہے ہیں تو یہ غیبت شمار نہیں ہو گی. مزید برآں جہاں واقعتا کوئی تمدنی ضرورت ہو تو کسی کی غیر موجودگی میں اس کی کسی بری بات کو‘جو فی الواقع اس میں ہو‘ بیان کر دینا غیبت کی تعریف سے خارج ہو جائے گا.

آیت کے آخر میں ارشاد ہوا: 
وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲﴾ ’’اور (ہرحال میں)اللہ کی نافرمانی سے بچو (اگر خطا ہو جائے تو اس کے حضور میں توبہ کرو). یقینا اللہ نہایت معاف کرنے والا ‘ رحم فرمانے والا ہے‘‘. کسی بندۂ مؤمن سے خطا ہو جائے تو اس کے لیے صحیح ترین رویہ یہ ہے کہ وہ اس پر پشیمانی کا اظہار کرے اور اللہ کی جناب میں رجوع کرے اور اس سے توبہ اور معافی کا طلب گار ہو. وہ اللہ تعالیٰ کو نہایت معاف فرمانے والا‘ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا پائے گا.

بہرحال ان دو آیات میں چھ نواہی بیان ہوئے. تمسخر و استہزاء سے بچنا‘ عیب جوئی اور عیب چینی سے بچنا‘ ایک دوسرے کے برے نام رکھنے سے بچنا‘ سوئے ظن سے اجتناب کرنا‘ تجسس اور غیبت سے بچنا. اگر ان نواہی کو ملحوظ رکھا جائے تو ایک مسلم معاشرے میں افرا د کو ایک دوسرے سے کاٹنے یا گروہوں‘ خاندانوں اور کنبوں کے درمیان رشتۂ محبت اور اخوت و مؤدت کو منقطع کرنے کے لیے جو رخنے پیدا ہو سکتے ہیں‘ ان سب کا سدِّباب ہو جائے گا.

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ ﴿۱۳﴾ 
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں پیدا کیا ایک مرد اور ایک عورت سے اور تمہیں قوموں اور قبیلوں کی شکل میں تقسیم کیا تاکہ باہم ایک دوسرے کو پہچان سکو.یقینا اللہ کے ہاں تم میں سے سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ خدا ترس اور پرہیزگار ہے. یقینا اللہ (سب کچھ) جاننے والا ہے (اور) باخبر ہے‘‘.

آپ کو یاد ہوگا کہ ا س سورۂ مبارکہ کے پہلے حصے میں اسلامی ہیئت اجتماعیہ‘ خواہ وہ ریاست کی صورت 
میں ہو خواہ معاشرہ کی شکل میں ہو‘ اس کی دو اساسات کا ذکر تھا ایک دستوری اور قانونی اساس کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے دائرے کے اندر اندر رہو‘ اس سے تجاوز نہ کرو اور دوسری ایک قلبی اور جذباتی بنیاد‘ یعنی آنحضور کی مرکزی شخصیت سے مضبوط تعلق‘ آپؐ سے انتہائی درجے کی قلبی محبت‘ آپؐ کا ادب و احترام اور آپؐ پر بحیثیت رسول پختہ ایمان. اس آخری حصے میں انسان کی ہیئت اجتماعیہ سے متعلق پھر نہایت اہم باتیں سامنے آ رہی ہیں.