اب جو آیت زیرِ مطالعہ ہے اس کے ضمن میں سب سے پہلے تو یہ بات نوٹ کیجیے کہ یہاں خطاب کا انداز بدل گیا. یعنی یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کی بجائے یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ آیا‘ جبکہ اس سے پہلے اس سورۂ میں پانچ مرتبہ خطاب کے لیے یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ آئے.معلوم ہوا کہ وہاں خطاب صرف اہل ایمان سے تھا. یہاں جو خطاب کے الفاظ بدل گئے ہیں تو وہ یوں نہیں بدلے‘ بلکہ اس لیے بدلے ہیں کہ اس آیت کا جو مضمون ہے وہ ایک آفاقی حقیقت‘ (Universal Truth) اور تمام انسانوں کے مابین ایک قدر مشترک ہے‘ اس سے قطع نظر کہ وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے ہوں‘ گورے ہوں یا کالے ہوں‘ مسلمان ہوں یا یہودی‘ عیسائی ‘ بدھ‘ سکھ اور پارسی ہوں ‘ یا مشرک اور دہریے ہوں. دنیا کے تمام انسانوں کے درمیان دو چیزیں مشترک ہیں جنہیں اس آیۂ مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے. چنانچہ خطاب فرمایا گیا: یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ یعنی ’’اے بنی نوع انسان اے لوگو!اب وہ دو مشترک چیزیں بیان فرمائی جا رہی ہیں. پہلی چیز ہے اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ ْ ’’ہم نے تم سب کو پیدا کیا‘‘ بنی نوع انسان کے دو یا چار خالق نہیں ہیں. ایسا نہیں ہے کہ گوروں کو پیدا کرنے والا کوئی الگ خدا ہو اور کالوں کا خالق کوئی الگ خداہو. معاذ اللہ ثم معاذ اللہ! ایسا بھی نہیں کہ مشرق کے رہنے والوں کا خالق کوئی اور ہو اور مغرب والوں کو پیدا کرنے والا کوئی اور ہو. لِلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ مشرق و مغرب سب کا اللہ ہی مالک ہے.ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلمان کا خالق کوئی اور خدا ہو اور غیر مسلم کا خالق کوئی اور خدا ہو‘ بلکہ سب کا خالق صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے. جیسا کہ ہم سورۃ التغابن میں پڑھ آئے ہیں کہ : ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ فَمِنۡکُمۡ کَافِرٌ وَّ مِنۡکُمۡ مُّؤۡمِنٌ ؕ ’’وہ (اللہ) ہی ہے جس نے تم سب کو پیدا کیا‘ پھر تم میں کوئی کافر ہے اور کوئی تم میں مؤمن ہے‘‘ یوں سمجھئے کہ یہاں وحدتِ خالق اور وحدتِ الٰہ بیان ہوئی. یہ وہ مشترک قدر ہے جو تمام نوعِ انسانی کو ایک رشتے میں منسلک کرتی ہے: اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ ْ ’’ہم نے تم سب کو پیدا کیا‘‘ یہ پہلی قدرِ مشترک کا بیان ہوا.

دوسری قدرِ مشترک کیا ہے! وہ ہے : 
مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی ’’ایک مرد اور ایک عورت سے‘‘. یہ وحدتِ آدم اور وحدتِ حوّا کا ذکر ہوا. تمہاری نسلیں کتنی ہی مختلف ہیں‘ تمہاری رنگتیں کتنی ہی جدا ہیں‘ تمہارے نقوش‘ تمہاری شکلیں‘ تمہاری شباہتیں کتنی ہی مختلف ہیں‘ تمہاری زبانیں کتنی ہی جدا ہیں‘لیکن تم سب اصل میں ایک ہی نسل ہو‘ تم سب کے سب آدم اور حوّا کی اولاد ہو. پس یہ دو مشترک قدریں ہیں جو تمام نوعِ انسانی کو ایک وحدت کے رشتے میں پروئے ہوئے ہیں. اور چونکہ یہ دو چیزیں وہ ہیں جو تمام انسانوں سے متعلق ہیں‘ لہذا یہاں خطاب یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ُ سے ہوا.