اس کے بعد ایک بڑی اہم حقیقت ہے جس کی طرف اشارہ ہو رہا ہے. وہ یہ کہ قوموں اور قبیلوں کی جو تقسیم بالفعل موجود ہے وہ بھی ہماری پیدا کردہ ہے . یعنی یہ تقسیم بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کی طرف سے ہوئی ہے. ہمارے ہاں اکثر و بیشتر بڑا افراط و تفریط کا معاملہ ہوتا ہے. وہ یہ کہ ہم کبھی جوش میں آکر اس تقسیم و تفریق کی بالکل نفی کر دیتے ہیں‘ جبکہ قرآن مجید اس کو تسلیم کر رہا ہے. اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قومی خصائص بھی ہوتے ہیں‘ قبیلوں کی بھی اپنی چند خصوصیات ہوتی ہیں. یہ تمام چیزیں واقعی اور فطری ہیں. زبانوں کا فرق تو وہ حقیقی ہے. اسی طرح شکل و شباہت کا فر ق ہے‘ چہروں کے نقوش جدا ہیں‘ رنگتوں میں فرق ہے. کوئی گورا ہے‘ کوئی کالا ہے‘ کوئی گندمی اور زرد رُو ہے. اس کا مفاد یہ ہے کہ ایک شخص کو دیکھتے ہی ہم پہچان لیتے ہیں کہ یہ چینی ہے یا حبشی ہے. وَقِسْ علٰی ھذا اس شخص سے کوئی بات نہیں ہوئی‘ اس سے آپ نے کچھ پوچھا نہیں اور صرف ظاہری رنگ اور نقوش سے پہچانتے ہی آپ نے اس کا سارا جغرافیائی پس منظر بھی جان لیا اور اس کا پورا تاریخی پس منظر بھی آپ کو معلوم ہو گیا. یہ ساری چیزیں درحقیقت تعارف اور پہچان کے لیے ہیں. چنانچہ فرمایا گیا: وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ ’’اور ہم نے بنائیں تمہاری قومیں اور تمہارے قبیلے تاکہ ایک دوسرے کو پہچانو‘‘ آپ خود سوچیے کہ اگر تمام انسان ایک رنگت کے ہوتے‘ تمام انسانوں کے نقوش ایک جیسے ہوتے. تو کتنی یکسانیت (monotony) ہوتی اور یہ کس قدر اکتاہٹ والی (boring) کیفیت اور کتنی بیزار کن صورت ہوتی. اس اختلاف اور فرق و تفاوت میں حسن ہے ؎
گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن
اے ذوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے!
تو اس تقسیم و تفریق اور اختلاف میں جو بہتری کا پہلو ہے اسے سامنے رکھا جانا چاہیے. ورنہ سوچیے کہ کتنا پریشان کن معاملہ ہوتا اور کیسے پہچانتے کہ یہ کون ہے! بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جڑواں اور ہم شکل بھائیوں یا بہنوں کے معاملے میں بڑے مغالطے ہوتے ہیں اور بہت سے لطیفے وجود میں آتے ہیں. ان کے مابین تمیز و امتیاز بڑا مشکل ہو جاتا ہے. پس معلوم ہوا کہ یہ فرق و تفاوت اور یہ اختلاف و امتیاز بالکل فطری (natural) ہے اور اس کا ایک مقصد ہے.اس کا ایک بڑا تمدنی فائدہ یہ ہے کہ لَا تَرۡفَعُوۡۤا ’’تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‘‘. اس کی نفی کرنا اسلام کی رو سے صحیح نہیں ہے.