اب اس پوری آیت کے بارے میں یہ بات نوٹ کیجیے کہ اس کے دو رخ ہیں. ایک رخ تو اس مضمون کی طرف ہے جو پچھلے سبق میں آ چکا ہے کہ استہزاء اور تمسخر نہ کرو‘ کسی کا مذاق نہ اڑاؤ‘ فقرے چست نہ کرو‘ کسی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھو‘ کسی کے برے نام نہ رکھو‘ کسی کی ٹوہ میں نہ لگو‘ خواہ مخواہ کسی کی بدگمانی سے بچو‘ کسی کی غیبت نہ کرو‘ بلکہ مطلوب یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میں باہمی اخوت ہو‘ محبت ہو‘ ہمدردی اور دمسازی ہو. تو اس کے لیے جو اصول اس آیت میں سامنے آیا وہ بڑی بنیادی اہمیت کا حامل ہے دیکھئے! حقارت کیوں ہوتی ہے؟اپنے آپ کو بڑھیا سمجھنے کی وجہ سے کوئی اپنے آپ کو اعلیٰ نسل کا سمجھتا ہے تو وہ ہر دوسرے کو ادنیٰ نسل کا سمجھے گا. اگر کسی کو اپنے کسی خلقی وصف‘ جیسے رنگت یا اچھی شکل و صورت پر‘ کوئی غرور پیدا ہو رہا ہے تو وہ ان کی بناء پر دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے گا اور ان کا تمسخر و استہزا کرے گا‘ حالانکہ یہ تمام چیزیں اختیاری نہیں ہیں‘ یہ تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں لہذا اس آیت میں اس اصل مرض کی جڑ کاٹ دی گئی‘ غرور کی علت پر تیشہ چلا دیا گیا کہ میں بڑا ہوں‘ میں اعلیٰ ہوں‘ میں اونچا ہوں. یہی وہ پندار ہے جو دوسرے کو حقیر اور ادنیٰ سمجھنے اور اس کا استہزا و تمسخر کرنے پر ایک دنی الطبع شخص کو آمادہ کرتا ہے. لہذا اس آیت میں یہ حقیقت بیان کر دی گئی کہ تمام انسان‘ انسان ہونے کے ناطے ایک ہیں. ان کا خالق بھی ایک اور ان کا جدِّ امجد بھی ایک ہے.

اس بات کو نبی اکرم نے حجۃ الوداع میں بایں الفاظ فرمایا تھا:

لَـیْسَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ فَضْلٌ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ فَضْلٌ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ فَضْلٌ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ فَضْلٌ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی کُلُّـکُمْ بَنُوْ آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ 
’’نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے‘ اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر فضیلت ہے اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت ہے. بنائے فضیلت صرف تقویٰ ہے. تم سب آدم ؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے تخلیق ہوئے تھے‘‘.

اس آیتِ مبارکہ کا دوسرا رُخ اس اعتبار سے کہ آپ دیکھیں گے کہ عام طور پر دنیا میں انسانوں کی تقسیم دو طریقوں سے ہوتی ہے. ایک افقی 
(Horizontal) تقسیم ہے اور ایک عمودی (Vertical) تقسیم ہے. افقی تقسیم یہ ہے کہ کوئی اونچا ہے‘ کوئی اس سے بھی اونچا ہے‘ کوئی اعلیٰ ہے‘ کوئی ادنیٰ ہے. یہ تو ہے درجوں کا تفاوت. اور عمودی تقسیم جس سے معاشرے ایک دوسرے سے الگ تھلگ (isolate) ہوتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ یہ اور سوسائٹی ہے‘ وہ اور سوسائٹی.یہ جرمن سوسائٹی ہے‘ وہ انگلش سوسائٹی . یہ فلاں ریاست ہے اور وہ فلاں ریاست. یہ فلاں قومیت ہے‘ وہ فلاں قومیت تو یہ دو تقسیمیں ہیں. دنیا میں عام طو رپر پہلی تقسیم نسل‘ رنگ‘ خون اور وطن کی بنیاد پر ہے.اسلام نے اس کی بالکلیہ جڑ کاٹ دی کہ یہ اونچ نیچ اور اعلیٰ و ادنیٰ کی رنگ‘ نسل‘ خون اور وطن کی بنیاد پر تقسیم اپنی اصل کے اعتبار سے فساد ہے‘ فتنہ ہے‘ انسانیت کی توہین و تذلیل ہے. اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرف وعزت اور اکرام و اعزاز کا معیار اعلیٰ سیرت و کردار ‘حسن اخلاق‘ نکوکاری‘ پرہیزگاری اور خداترسی یعنی تقویٰ ہے.

اب ہے دوسری عمودی تقسیم اور یہ تقسیم اسلام بھی کرتا ہے.ایک اسلامی معاشرہ کا بہرحال ایک غیر اسلامی معاشرے سے علیحدہ تشخص ہے. ایک اسلامی ریاست ممیز
 (demarcate) ہوتی ہے ایک غیر اسلامی ریاست سے. یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ یہ عمودی تقسیم کس بنیاد پر ہے؟ تو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اس تقسیم کی بنیاد نہ نسل ہے‘ نہ رنگ ہے‘ نہ خون ہے‘ نہ قوم و وطن ہے اور نہ ہی زبان ہے. یہ بنیاد ہے نظریہ‘ عقیدہ‘ خیالات اور اصول یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو ماننے والے ہیں‘ یہ محمد رسول اللہ کے دامن سے وابستہ ہیں. یہ بعث بعد الموت‘ حشر و نشر‘ جنت و دوزخ اور محاسبۂ اخروی کو ان تفاصیل کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں جن کی خبر دی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں‘ اور جن کی خبر دی ہے نبی اکرم نے اپنے ارشادات و فرمودات گرامی میں اسلام کی اصطلاح میں اس تسلیم و یقین کا نام ایمان ہے. حاصل گفتگو یہ نکلا کہ اسلام نے اس چیز کی کلی نفی کر دی جو افقی (Horizontal) اور عمودی (Vertical) ‘ دونوں سطحوں پر نوعِ انسانی کو تقسیم کر رہی تھی.اسلام میں جو افقی تقسیم ہے وہ ہے تقویٰ یعنی نکوکاری‘ خدا ترسی اور پرہیزگاری کی بنیاد پر اورعمودی تقسیم یعنی اسلامی معاشرہ کا غیر اسلامی معاشرہ سے علیحدہ اور ممیز ہونا‘ وہ ہو گا نظریہ و عقیدہ یعنی ایمان کی بنیاد پر.

پھر یہ بات بھی پیشِ نظر رکھیے کہ کوئی انسان اپنی چمڑی کی رنگت بدل نہیں سکتا. وہ چاہے سوبرس سے امریکہ میں رہ رہا ہو‘ وہ کالا ہی ہے. لہذا ایک ملک میں رہنے کے باوجود کالوں کا معاشرہ علیحدہ ہو گا‘ گوروں کا معاشرہ علیحدہ ہو گا. اگر کوئی شخص انگلش نسل سے ہے تو وہ جرمن نسل کا شمار نہیں ہو سکتا. یہ حدود تو وہ ہیں جن کو انسان 
cross نہیں کر سکتا‘ ان کو پھلانگ نہیں سکتا. یہ رکاوٹیں (barriers) مستقل ہیں. جبکہ نظریے اور خیالات کے barriers تو آناً فاناً ختم ہو جاتے ہیں. آج کوئی شخص کلمہ شہادت ادا کرتا ہے تو فی الفور وہ مسلمان معاشرے کا باعزت فرد بن جاتا ہے. ایک شخص جو خواہ ہندو سوسائٹی میں شودر ہو‘ اچھوت ہو‘ جس کا ہندو معاشرے کے اندر سڑک کے درمیان سے گذرنا بھی ممنوع ہو‘ اور اس کے کانوں میں اگر وید کے اشلوک پڑ جائیں چاہے اس کی نادانستگی میں پڑے ہوں تو ہندو دھرم کی رو سے اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالنا لازم ہو جائے. لیکن آج اگر وہ کلمہ پڑھ لے تو وہ سید زادے کے ساتھ‘ شیخ الاسلام کے ساتھ‘ بڑے سے بڑے مسلمان کے ساتھ بھی کاندھے سے کاندھا ملا کر مسجد میں نماز میں کھڑا ہو جاتا ہے‘ اور یہ نو مسلم ہر مسلمان کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھا سکتا ہے اور ایک ہی برتن سے پانی پی سکتا ہے‘ جبکہ پیدائشی شودر ہندو دھرم میں ہمیشہ ہمیش کے لیے اچھوت اور ناپاک ہی رہتا ہے چاہے وہ تعلیم میں‘ کردار میں‘ اخلاق میں پیدائشی برہمن سے کتنا ہی ترقی یافتہ ہو ایمان کی تقسیم وہ نہیں ہے جو کہ مستقل بالذات ہو. یہ تقسیم تو وہ ہے کہ انسان جب چاہے اس رکاوٹ (barrier) کو عبور کرے اور اسلامی معاشرے میں شامل ہو جائے.