قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ 
’’یہ بدّو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے. (اے نبی ) ان سے کہہ دیجیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو‘ بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں(یعنی ہم نے اطاعت قبول کر لی ہے) جبکہ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا. تاہم اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے رہو گے تو اللہ تمہارے اعمال (کے اجر و ثواب) میں کوئی کمی نہیں کرے گا . یقینا اللہ بخشنے والا‘ رحم فرمانے والا ہے‘‘. 

یہ بات نوٹ فرما لیجیے کہ ایک خاص مضمون کے اعتبار سے یہ قرآن مجید کی اہم ترین آیت ہے ‘ اور وہ خاص مضمون ہے ایمان اور اسلام کا فرق. قرآن مجید میں اکثر و بیشتر ’’ایمان و اسلام‘‘ اور ’’مؤمن و مسلم‘‘ ہم معنی اور مترادف الفاظ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں. جو کوئی مؤمن ہے وہ مسلمان ہے اور جو کوئی مسلمان ہے وہ مؤمن ہے. یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے انگریزی میں ہم کہتے ہیں: 

.Call the rose by any name, it will smell as sweet 

اس لیے کہ ایمان ایک باطنی کیفیت ہے جبکہ اسلام اس کا عالمِ واقع میں ظہور ہے.اب جس شخص میں یہ دونوں چیزیں موجود ہیں‘ دل میں ایمان بھی ہے‘ عمل میں اسلام بھی ہے‘ اسے آپ چاہے مؤمن کہیں‘ چاہے مسلم کہہ لیں‘ کوئی فرق نہیں واقع ہو گا. لیکن یہاں آپ نے الفاظِ قرآنی اور ان کا ترجمہ ملاحظہ کیا کہ اس آیۂ مبارکہ میں ان دونوں کو ایک دوسرے کے بالمقابل لایا گیا ہے اور ایک معین گروہ کے دعوائے ایمان کی پرزور نفی کی گئی ہے . ’’ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا ‘‘ میں نہایت مؤکد نفی ہے‘ اسی لیے میں نے ترجمہ میں لفظ ’’ہرگز‘‘ کا اضافہ کیا ہے کہ ’’تم ہرگز ایمان نہیں لائے‘‘ عربی زبان میں فعل ماضی میں نفی پیدا کرنے کے لیے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ماضی ہی میں ’’ما‘‘کا اضافہ ہو جائے‘ جیسے مَا اٰمَنْتُمْ ’’تم ایمان نہیں لائے ہو‘‘.دوسرا قاعدہ یہ ہے کہ فعل مضارع پر ’’لَـمْ‘‘ داخل کیا جائے. یہ تاکید کے لیے ہوتا ہے. لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا ’’تم ہرگز ایمان نہیں لائے‘‘. بات مکمل تھی‘ لیکن اسے یہ فرما کر مزید مؤکد کیا گیا: وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ ’’اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا‘‘. وہ تو صرف تمہاری زبانوں پر ہے. معلوم ہوا کہ یہاں ایمان کی نہایت مؤکد ‘ نہایت تاکیدی اسلوب سے نفی ہو گئی‘ بایں ہمہ ان کا سلام تسلیم کیا جا رہا ہے : وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا .... ’’البتہ تم کہہ سکتے ہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں (ہم مسلمان ہو گئے ہیں‘ ہم نے اطاعت قبول کر لی ہے‘‘.اس لیے کہ اسلام کے لفظی معنی ہیں to surrender اور .to give up resistance یعنی مقابلہ و مقاومت اور مخالفت و مزاحمت چھوڑ کر سر تسلیم خم کر دینا. اسے فارسی میں کہا جائے گا ’’گردن نہادن‘‘. تو فرمایا گیا کہ یہ بدّو کہہ سکتے ہیں کہ ہم اسلام لے آئے ہیں یعنی ہم نے اطاعت قبول کر لی ہے.

آگے فرمایا گیا : 
وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ یعنی اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر کاربند رہو گے تو تمہارے اعمال قبول کر لیے جائیں گے‘ ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی. تمہارا اسلام تسلیم ہے‘ لیکن اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم ایمان لے آئے ہو تو یہ تمہارا بڑا مغالطہ ہے‘ اس کی تصحیح کر لو. آیت کا اختتام ہوتا ہے ان الفاظِ مبارکہ پر: اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ ’’یقینا اللہ نہایت بخشنے والا‘ بہت رحم فرمانے والا ہے‘‘. یعنی یہ جو رعایت دی جارہی ہے کہ قلبی ایمان کے بغیر تمہارے اسلام اور تمہاری اطاعت کو قبول کرنے اور تمہاری مغفرت کرنے‘ تم پر رحم فرمانے کی بشارت دی جا رہی ہے‘ وہ اس کی شانِ غفاری و رحیمی کے طفیل ہے. اس کی مزید وضاحت ان شاء اللہ آگے آئے گی.