پھر فتح مکہ کے بعد صورتِ حال بالکل بدل گئی. اب تو گویا عرب میں سب سے بڑی طاقت رسول اللہﷺ کی تھی. جب قریش شکست کھا چکے اور طائف کے دو مضبوط قبائل ہوازن اور ثقیف بھی مغلوب ہو گئے تو اب عرب میں اور کون تھا جو جناب محمدٌ رسول اللہﷺ کے مدّمقابل آتا. لہذا تمام قبائل عرب میں ایک رو چلی. سب نے اپنی اپنی جگہ طے کیا کہ نبی اکرمﷺ سے مقابلہ کرنے اور آپؐ کی مزاحمت کرنے کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے‘ اب ہم آپﷺ کی پیش قدمی میں مزاحم نہیں ہو سکتے‘ لہذا خود ہی مدینہ چلیں اور محمدٌﷺ کی اطاعت قبول کر لیں یہ ہے وہ نقشہ جو آخری پارے کی سورۃ النصر میں آتا ہے کہ :
اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾
کبھی یہ عالم تھا کہ مکہ میں مہینوں میں چند لوگ ہی ایمان لائے ہوں گے اور اب یہ منظر ہے کہ ہزاروں افراد کا نمائندہ وفد دفعتاً آیا اور اس نے اسلام قبول کر لیا‘ یا بالفاظِ دیگر اطاعت تسلیم کر لی. لیکن اس کے معنی یہ تو نہیں ہیں کہ اس اجتماعی فیصلے کے نتیجے میں ان کے دلوں کی کیفیت بھی چشمِ زدن میں بدل گئی ہو. لہذا اب ایسے لوگ بھی وجود میں آ گئے جو مسلم تو ہیں‘ جنہوں نے اطاعت قبول کر لی ہے‘ جو کلمۂ شہادت ادا کر رہے ہیں‘ لیکن ’’مؤمن‘‘ ہونے کی کیفیت ابھی انہیں حاصل نہیں ہوئی.
یہ بات پیشِ نظر رکھیے کہ جتنے قبائل بھی ایمان لائے ان میں سب کی کیفیت یہ نہیں تھی. البتہ کچھ لوگ یقینا ایسے بھی تھے جن سے یہ خطاب ہو رہا ہے. اعراب یعنی بدوؤں کے بارے میں سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر ۹۹ میں یہ وضاحت موجود ہے :
وَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ؕ اَلَاۤ اِنَّہَا قُرۡبَۃٌ لَّہُمۡ ؕ سَیُدۡخِلُہُمُ اللّٰہُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۹۹﴾
’’اور بدوؤں‘ بادیہ نشینوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اوریومِ آخر پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اور رسول (ﷺ ) سے دعائیں لینے کا ذریعہ بنانے کے لیے. یاد رکھو‘ ان کا خرچ کرنا بے شک موجبِ قربت ہے. اللہ ان کو ضرور اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا. بے شک اللہ نہایت مغفرت فرمانے والا‘ بڑا رحم فرمانے والا ہے‘‘.
یہ آیت مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سب بدو ایسے نہیں تھے.