اب ہم ذرا دوپہلوؤں سے اس آیت پر غور کریں گے. پہلے تو ہم اس پہلو سے اس آیت مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے جسے تأویل خاص کہتے ہیں‘ یعنی قرآن مجید کے زمانۂ نزول اور اس آیت کے پس منظر کے حوالے سے سمجھا جائے کہ وہ کون لوگ تھے جن سے یہ خطاب ہو رہا ہے. اس بات کی تفہیم کے لیے سیرت النبی علی صاحبہا الصلوٰۃوالسلام کے جو مختلف ادوار ہیں‘ ذرا ان کو ذہن میں لایئے. جب تک حضورﷺ مکہ میں تشریف فرما رہے‘ سب کو معلوم ہے کہ مسلمان کمزور تھے‘ کفر کا غلبہ تھا. جو شخص اسلام قبول کرتا تھا اسے ستایا جاتا تھا‘ طرح طرح کی ایذائیں پہنچائی جاتی تھیں اور ہر قسم کے تشدد کانشانہ بنایا جاتا تھا. لہذا صرف وہی شخص زبان پر کلمۂ شہادت لاتا تھا جس کے دل میں یقین کامل پیدا ہو چکا ہوتا تھا اتنا پختہ یقین کہ وہ اس کلمۂ حق کی ادائیگی پر اپنی جان کی قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتا تھا اتنا گہرا یقین کہ وہ اس کلمۂ شہادت کو ادا کرنے پر دنیا کی ہر شے کو تج دینے کے لیے ہر وقت آمادہ ہوتا تھا. جب اس درجے میں اس کے دل میں اللہ پر‘ اس کی توحید پر‘ حضورﷺ کی نبوت و رسالت پر اور بعث بعد الموت‘ حشر ونشر ‘جزا و سزاپر ایمان جاگزیں ہو جاتا تھا تب وہ کہتا تھا : اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ یعنی وہاں ایمان پہلے تھااور اسلام بعد میں آیا. لیکن ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں جب نبی اکرمﷺ تشریف لے آئے تب حالات بدل گئے . اب اسلام کے غلبے کا دَور شروع ہوا. یثرب جو بعد میں مدینہ النبی بنا‘ پہلے ایک ’’شہری ریاست‘‘ تھی‘ پھر یہاں اسلام کا غلبہ بڑھتا چلا گیا. لہذا جیسے جیسے حالات بدلتے چلے گئے اور اسلام ایک غالب قوت کی حیثیت اختیار کرتا چلا گیا ویسے ویسے مکی دَور والی کیفیت بھی بدلتی چلی گئی. اب ان مصائب و شدائد سے سابقہ پیش آنا ختم ہو گیا جن کا سلسلہ مکّہ میں بارہ تیرہ سال جاری رہا تھا. اس تبدیل شدہ صورتِ حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ کچے پکے لوگ بھی اسلام کے حلقہ بگوش ہو گئے. اب چونکہ کسی تشدد اور جورو تعدی کا کوئی خطرہ موجود نہیں تھا‘ لہذا لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگے. اوس و خزرج کے پورے کے پورے قبیلے ایمان لے آئے. ظاہر بات ہے کہ چشمِ زدن میں ان کے دلوں میں حقیقی ایمان جاگزیں نہیں ہوجانا تھا‘ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مدینہ منورہ میں منافقین کی ایک جماعت کاظہور ہونا شروع ہوا.
پھر فتح مکہ کے بعد صورتِ حال بالکل بدل گئی. اب تو گویا عرب میں سب سے بڑی طاقت رسول اللہﷺ کی تھی. جب قریش شکست کھا چکے اور طائف کے دو مضبوط قبائل ہوازن اور ثقیف بھی مغلوب ہو گئے تو اب عرب میں اور کون تھا جو جناب محمدٌ رسول اللہﷺ کے مدّمقابل آتا. لہذا تمام قبائل عرب میں ایک رو چلی. سب نے اپنی اپنی جگہ طے کیا کہ نبی اکرمﷺ سے مقابلہ کرنے اور آپؐ کی مزاحمت کرنے کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے‘ اب ہم آپﷺ کی پیش قدمی میں مزاحم نہیں ہو سکتے‘ لہذا خود ہی مدینہ چلیں اور محمدٌﷺ کی اطاعت قبول کر لیں یہ ہے وہ نقشہ جو آخری پارے کی سورۃ النصر میں آتا ہے کہ :
اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾
کبھی یہ عالم تھا کہ مکہ میں مہینوں میں چند لوگ ہی ایمان لائے ہوں گے اور اب یہ منظر ہے کہ ہزاروں افراد کا نمائندہ وفد دفعتاً آیا اور اس نے اسلام قبول کر لیا‘ یا بالفاظِ دیگر اطاعت تسلیم کر لی. لیکن اس کے معنی یہ تو نہیں ہیں کہ اس اجتماعی فیصلے کے نتیجے میں ان کے دلوں کی کیفیت بھی چشمِ زدن میں بدل گئی ہو. لہذا اب ایسے لوگ بھی وجود میں آ گئے جو مسلم تو ہیں‘ جنہوں نے اطاعت قبول کر لی ہے‘ جو کلمۂ شہادت ادا کر رہے ہیں‘ لیکن ’’مؤمن‘‘ ہونے کی کیفیت ابھی انہیں حاصل نہیں ہوئی.
یہ بات پیشِ نظر رکھیے کہ جتنے قبائل بھی ایمان لائے ان میں سب کی کیفیت یہ نہیں تھی. البتہ کچھ لوگ یقینا ایسے بھی تھے جن سے یہ خطاب ہو رہا ہے. اعراب یعنی بدوؤں کے بارے میں سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر ۹۹ میں یہ وضاحت موجود ہے :
وَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ ؕ اَلَاۤ اِنَّہَا قُرۡبَۃٌ لَّہُمۡ ؕ سَیُدۡخِلُہُمُ اللّٰہُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۹۹﴾
’’اور بدوؤں‘ بادیہ نشینوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اوریومِ آخر پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اور رسول (ﷺ ) سے دعائیں لینے کا ذریعہ بنانے کے لیے. یاد رکھو‘ ان کا خرچ کرنا بے شک موجبِ قربت ہے. اللہ ان کو ضرور اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا. بے شک اللہ نہایت مغفرت فرمانے والا‘ بڑا رحم فرمانے والا ہے‘‘.
یہ آیت مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سب بدو ایسے نہیں تھے.