یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری!
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری!
تو یہ یقین عنقا ہے. یہ وہ شے ہے جو شاذ شاذ ہی نظر آتی ہے.
اب اگر ہم اس صورتِ حال کو سامنے رکھ کر اس آیت پر مزید غور کریں تو ایک بات ہمارے لیے بڑی امید افزا اور نوید جاں فزا ہے کہ جیسے ان بدوؤں سے کہا گیا کہ اگر تم اپنے سینوں میں جھانکو اور تمہیں محسوس ہو کہ وہ یقین والی بات حاصل نہیں ہے تو بھی مایوس نہ ہو ’’اگر تم اللہ اوراس کے رسول(ﷺ ) کی اطاعت پر کاربند رہو گے تو ہم تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کریں گے‘‘. واقعہ یہ ہے کہ یہ بہت بڑی رعایت ہے. غور کیجیے کہ اگر منطقی اور اصولی طور پر بات سمجھی جائے تو وہ یہ ہو گی کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہونا چاہیے‘ لیکن یہاں رعایت دی جا رہی ہے کہ کوئی شخص اپنے دل کو ٹٹولے اور محسوس کرے کہ یقین والی کیفیت موجود نہیں ہے تو بھی مایوس نہ ہو. اس حالت و کیفیت میں بھی اگر تم اطاعت پر کاربند رہو گے‘ نافرمانیوں سے بچو گے تو ہم تمہارے اعمال قبول کر لیں گے. ان میں کوئی کمی اور کٹوتی نہیں کریں گے.
اب ذرا غور کیجیے کہ آیت کا اختتام اللہ تعالیٰ کی کن صفات پر ہو رہا ہے! فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ ’’یقینا اللہ غفور ہے‘ رحیم ہے‘‘. یہ اس کی شانِ غفاری کا صدقہ اور اس کی شانِ رحیمی کا مظہر ہے کہ وہ تمہارے ساتھ یہ نرمی برت رہا ہے اور تمہیں یہ رعایت دے رہا ہے کہ ایمانِ حقیقی اور یقین قلبی میسر نہ ہو تب بھی اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے رہو گے تو تمہارے اعمال قبول کر لیے جائیں گے‘تمہارے اجر و ثواب میں ذرہ برابر کوئی کمی اور کٹوتی نہیں ہو گی: لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾