اب ذرا اس آیت مبارکہ پر تأویل عام کے اعتبار سے غور کیجیے.اب اگر ہم اپنی صورتِ حال پر غور کریں گے تو ہمیں محسوس ہو گا کہ ہماری عظیم اکثریت کا معاملہ بھی یہی ہے. ہم نے اپنے انتخاب (choice) سے تو ایمان قبول نہیں کیا‘ ہمیں دولت ِ ایمان سوچ سمجھ کر‘ اپنے فیصلے سے حاصل نہیں ہوئی‘ بلکہ ہمیں تو اسلام وراثتاً مل گیا ہے. وہاں فتح مکہ کے بعد ایک رو چلی تھی کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو گئے تھے. یہاں ایک نسلی تسلسل ہے‘ ایک سلسلہ ہے جو نسل کی وجہ سے منتقل ہو رہا ہے. تو ہم میں سے بھی اکثر و بیشتر درحقیقت اس آیت کا مصداق ہیں. اِلاَّ مَاشَاءَ اللّٰہُ ‘ جن کو اللہ تعالیٰ حقیقی و قلبی ایمان و ایقان کی دولت نصیب فرما دے.اور بہرحال ایسے افراد ہر دور میں موجود رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں‘ لیکن اگر ہم اکثریت کو سامنے رکھ کر غور کریں گے تو معاملہ اسی مقام پر نظر آئے گا کہ اسلام ہے‘ کلمۂ شہادت ہے‘ لیکن دلی یقین والی کیفیت شاذ و نادر ہی نظر آئے گی وہ یقین جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری!
تو یہ یقین عنقا ہے. یہ وہ شے ہے جو شاذ شاذ ہی نظر آتی ہے.
اب اگر ہم اس صورتِ حال کو سامنے رکھ کر اس آیت پر مزید غور کریں تو ایک بات ہمارے لیے بڑی امید افزا اور نوید جاں فزا ہے کہ جیسے ان بدوؤں سے کہا گیا کہ اگر تم اپنے سینوں میں جھانکو اور تمہیں محسوس ہو کہ وہ یقین والی بات حاصل نہیں ہے تو بھی مایوس نہ ہو ’’اگر تم اللہ اوراس کے رسول(ﷺ ) کی اطاعت پر کاربند رہو گے تو ہم تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کریں گے‘‘. واقعہ یہ ہے کہ یہ بہت بڑی رعایت ہے. غور کیجیے کہ اگر منطقی اور اصولی طور پر بات سمجھی جائے تو وہ یہ ہو گی کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہونا چاہیے‘ لیکن یہاں رعایت دی جا رہی ہے کہ کوئی شخص اپنے دل کو ٹٹولے اور محسوس کرے کہ یقین والی کیفیت موجود نہیں ہے تو بھی مایوس نہ ہو. اس حالت و کیفیت میں بھی اگر تم اطاعت پر کاربند رہو گے‘ نافرمانیوں سے بچو گے تو ہم تمہارے اعمال قبول کر لیں گے. ان میں کوئی کمی اور کٹوتی نہیں کریں گے.
اب ذرا غور کیجیے کہ آیت کا اختتام اللہ تعالیٰ کی کن صفات پر ہو رہا ہے! فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ ’’یقینا اللہ غفور ہے‘ رحیم ہے‘‘. یہ اس کی شانِ غفاری کا صدقہ اور اس کی شانِ رحیمی کا مظہر ہے کہ وہ تمہارے ساتھ یہ نرمی برت رہا ہے اور تمہیں یہ رعایت دے رہا ہے کہ ایمانِ حقیقی اور یقین قلبی میسر نہ ہو تب بھی اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے رہو گے تو تمہارے اعمال قبول کر لیے جائیں گے‘تمہارے اجر و ثواب میں ذرہ برابر کوئی کمی اور کٹوتی نہیں ہو گی: لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾