تو یہ ہے نہایت زوردار انتباہ. کسی وقت کوئی خطا ہو جائے تو وہ بات اور ہے جذبات میں مغلوب ہو کر انسان کوئی غلطی کر بیٹھے تو یہ بات اور ہے. وہ فوراً رجوع کرے گا‘ توبہ کرے گا. توبہ پر ہماری ان مجالس میں بڑی تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے. میں مثال دیا کرتا ہوں کہ آپ راہ چلتے ہوئے کہیں پھسل کر کیچڑ میں گر جائیں تو وہاں پڑے نہیں رہتے‘ بجلی کی تیزی سے اٹھتے ہیں. یہی معاملہ توبہ کا ہے. انسان کا پاؤں پھسل سکتا ہے‘لغزش ہو سکتی ہے‘ انسان کسی معصیت میں‘ کسی گناہ میں‘ کسی غلط کام میں ملوث ہو سکتا ہے. ماحول کے کچھ وقتی اثرات غالب آ جائیں‘ کسی وقت نفس میں کوئی طوفان آ گیا ہو جس کے باعث آپ کے حواس مختل ہو جائیں‘ آپ جذبات کی شدت سے مغلوب ہو جائیں اور آپ کوئی غلط کام کر بیٹھیں‘ تو اگر اللہ کا خوف دامن گیر ہے‘ خدا ترسی ہے‘ آخرت کا استحضار ہے تو آپ ہوش میں آتے ہی رجوع کریں گے‘پلٹیں گے‘ ندامت اور پشیمانی کا اظہار کریں گے. آپ اپنی خطا کا اللہ کے سامنے اقرار کریں گے‘ سچے دل سے توبہ کریں گے‘ گڑگڑا کر اس سے استغفار کریں گے‘ اس سے عفو کے طالب ہوں گے. آپ کی اس روش کے جواب میں آپ کے ساتھ معاملہ یہ ہو گا ؎
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
وقتی طور پر خطا کا صدور ہو جانا‘ کوئی گناہ کر بیٹھنا‘ کسی معصیت کا ارتکاب ہو جانا بالکل دوسری بات ہے‘ لیکن کسی معصیت پر مستقل ڈیرہ لگا کر بیٹھ جانا‘ اپنی زندگی میں کسی حرام کام کو مستقل طور پر جاری رکھنا‘ یہ بالکل وہی بات ہے کہ : اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ ٍ اس وطیرے اور رویے پر جو وعید آئی ہے اس کے تناظر میں آپ نے محسوس کر لیاہو گا کہ ہم جو یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ ؎
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں!
گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں!
یعنی ہم دنیا میں کیوں ذلیل و رسوا ہو گئے اور اس ذلت و رسوائی میں اضافہ کیوں ہوتا چلا جا رہا ہے؟ تو اس کا جواب سورۃ البقرۃ کی اسی آیت میں موجود ہے. یہ اس سبب سے ہے کہ ہم نے شریعت اسلامی کے حصے بخرے کر رکھے ہیں کہ ایک کو مانیں گے‘ ایک کو نہیں مانیں گے. اسی گستاخانہ رویے کی سزا بیان ہوئی : خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ’’دنیا کی زندگی میں رسوائی‘ ذلت اور خواری‘‘. یہی سزا ہے جو ہمیں مل رہی ہے اور اسی رویے کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو آخرت کے عذاب کا مستحق بنا چکے ہیں. اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاری و رحیمی کے سہارے اگر چھٹکارا مل جائے تو بات دوسری ہے.