البتہ اس میں ایک انتباہ بھی ہے کہ اسے کہیں انسان اپنے لیے ایک کھلا لائسنس نہ سمجھ لے‘ کھلی چھٹی نہ سمجھ بیٹھے . اور کہیں ایسا نہ ہو کہ حقیقی ایمان کے حصول کی کوئی کوشش ہی نہ کرے. اس لیے کہ ازروئے قرآن مغفرت کے لیے کلی اطاعت مطلوب ہو گی. جزوی اطاعت‘ اطاعت نہیں ہے. اللہ اور اس کے رسول  کے بعض احکام کو مان لینا اور بعض احکام کو ترک کر دینا‘ بعض کو سر آنکھوں پر رکھنا اور بعض کو پاؤں تلے روند دینا‘ یہ اطاعت نہیں ہے. یہ جسارت ہے‘ یہ ڈھٹائی ہے‘ یہ گستاخی ہے‘ یہ اللہ کے ساتھ تمسخر و استہزاء ہے. وہ جو کہتے ہیں ’’بازی بازی باریش بابا ہم بازی!‘‘ یہ کھیل تم اللہ کے ساتھ کھیل رہے ہو! یہ مذاق تم اللہ کے رسول کے ساتھ کر رہے ہو! نماز پڑھنے کا حکم کس کا ہے؟ اللہ کا! وہ تو ہم پڑھیں گے. اللہ ہی کا حکم ہے روزہ رکھو‘ ہم رکھیں گے‘ اللہ ہی کا حکم ہے کہ رشوت نہ لو‘ لیکن اسے ہم نہیں مانیں گے. اس کے کیا معنی ہیں؟ یہ کہ اللہ کے بعض احکام کو تو سر آنکھوں پر رکھا اور بعض کو پاؤں تلے روند دیا. جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ یہ جسارت ہے‘ ڈھٹائی ہے ‘ اللہ کی جناب میں بہت بڑی گستاخی ہے. اس پر سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۵ میں شدید تنبیہ کی گئی ہے. فرمایا: اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ ’’کیا تم ہماری کتاب (اور شریعت) کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک حصے کو نہیں مانتے؟‘‘ سود کی حرمت بھی تو اسی قرآن میں ہے. رشوت لینے اور دینے سے منع بھی تو اسی شریعت اسلامی نے کیا ہے جس میں فرض عبادات کا حکم ہے یہ رویہ اور وطیرہ اختیار کرنے والوں کے لیے آگے وعید آئی ہے : فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ ’’پس کوئی سزا نہیں ہے اس شخص کی جو تم میں سے یہ طرزِ عمل اختیار کرے گا سوائے اس کے کہ اسے دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار کر دیا جائے‘‘ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ ’’اور قیامت کے دن انہیں شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے گا‘ اور جان لو کہ اللہ غافل اور بے خبر نہیں ہے اس سے جو تم کر رہے ہو‘‘. تم لوگوں کو دھوکہ دے سکتے ہو‘ تم لوگوں کی زبانیں بند کر سکتے ہو لیکن اللہ سے کوئی چیز چھپا نہیں سکتے.

تو یہ ہے نہایت زوردار انتباہ. کسی وقت کوئی خطا ہو جائے تو وہ بات اور ہے جذبات میں مغلوب ہو کر انسان کوئی غلطی کر بیٹھے تو یہ بات اور ہے. وہ فوراً رجوع کرے گا‘ توبہ کرے گا. توبہ پر ہماری ان مجالس میں بڑی تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے. میں مثال دیا کرتا ہوں کہ آپ راہ چلتے ہوئے 
کہیں پھسل کر کیچڑ میں گر جائیں تو وہاں پڑے نہیں رہتے‘ بجلی کی تیزی سے اٹھتے ہیں. یہی معاملہ توبہ کا ہے. انسان کا پاؤں پھسل سکتا ہے‘لغزش ہو سکتی ہے‘ انسان کسی معصیت میں‘ کسی گناہ میں‘ کسی غلط کام میں ملوث ہو سکتا ہے. ماحول کے کچھ وقتی اثرات غالب آ جائیں‘ کسی وقت نفس میں کوئی طوفان آ گیا ہو جس کے باعث آپ کے حواس مختل ہو جائیں‘ آپ جذبات کی شدت سے مغلوب ہو جائیں اور آپ کوئی غلط کام کر بیٹھیں‘ تو اگر اللہ کا خوف دامن گیر ہے‘ خدا ترسی ہے‘ آخرت کا استحضار ہے تو آپ ہوش میں آتے ہی رجوع کریں گے‘پلٹیں گے‘ ندامت اور پشیمانی کا اظہار کریں گے. آپ اپنی خطا کا اللہ کے سامنے اقرار کریں گے‘ سچے دل سے توبہ کریں گے‘ گڑگڑا کر اس سے استغفار کریں گے‘ اس سے عفو کے طالب ہوں گے. آپ کی اس روش کے جواب میں آپ کے ساتھ معاملہ یہ ہو گا ؎

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

وقتی طور پر خطا کا صدور ہو جانا‘ کوئی گناہ کر بیٹھنا‘ کسی معصیت کا ارتکاب ہو جانا بالکل دوسری بات ہے‘ لیکن کسی معصیت پر مستقل ڈیرہ لگا کر بیٹھ جانا‘ اپنی زندگی میں کسی حرام کام کو مستقل طور پر جاری رکھنا‘ یہ بالکل وہی بات ہے کہ : اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ ٍ اس وطیرے اور رویے پر جو وعید آئی ہے اس کے تناظر میں آپ نے محسوس کر لیاہو گا کہ ہم جو یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ ؎

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں!

یعنی ہم دنیا میں کیوں ذلیل و رسوا ہو گئے اور اس ذلت و رسوائی میں اضافہ کیوں ہوتا چلا جا رہا ہے؟ تو اس کا جواب سورۃ البقرۃ کی اسی آیت میں موجود ہے. یہ اس سبب سے ہے کہ ہم نے شریعت اسلامی کے حصے بخرے کر رکھے ہیں کہ ایک کو مانیں گے‘ ایک کو نہیں مانیں گے. اسی گستاخانہ رویے کی سزا بیان ہوئی : خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ’’دنیا کی زندگی میں رسوائی‘ ذلت اور خواری‘‘. یہی سزا ہے جو ہمیں مل رہی ہے اور اسی رویے کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو آخرت کے عذاب کا مستحق بنا چکے ہیں. اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاری و رحیمی کے سہارے اگر چھٹکارا مل جائے تو بات دوسری ہے.