آیت کے اس اوّل و آخر کو سمجھ کر اب آیئے یہ دیکھیں کہ اس آیت کا اصل مضمون اور اصل content کیا ہے! آیت پر تھوڑے سے غور سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایمانِ حقیقی کے دو لوازم ہیں. یا اگر بغرضِ تفہیم فقہی اصطلاح استعمال کی جائے تو کہا جائے گا کہ ایمانِ حقیقی کے دوارکان ہیں. دیکھئے کہ ارکان اسلام سے ہر مسلمان واقف ہے جو حدیث میں بیان ہوئے ہیں:

بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃِ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وَاِقَامِ الصَّلَاۃِ وَاِیْتَاءِ الزَّکَاۃِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ (۱
’’اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے : کلمۂ شہادت‘ نماز‘ زکوٰۃ‘ حج اور صومِ رمضان.‘‘

یہ پانچوں کیا ہیں؟ یہ ارکانِ اسلام ہیں؟ اسلام کے ستون ہیں ! اس اصطلاح کو ذہن نشین کر لیجیے اور دیکھئے کہ اس آیتِ مبارکہ کی رو سے ایمان کے دو ارکان کیا ہیں! پہلا رکن ہے اللہ اور اس کے رسول( ) پر وہ ایمان جس میں شکوک وشبہات باقی نہ رہیں. یہاں بھی دیکھئے کہ ’’ریب‘‘ سے فعل مضارع 
’’یَرْتَابُوْا‘‘ سے پہلے ’’لَمْ‘‘ آیا.معنی ہوئے ’’ہرگز شک نہ کریں‘‘. یعنی شکوک و شبہات کے کانٹے بالکل نکل چکے ہوں. معلوم ہوا کہ یہ ہے ’’یقین قلبی‘‘ یہ فکر ونظر یعنی عقیدے کا اخلاص ہوا. یہ ہے ایمانِ حقیقی کا پہلا رکن. دوسرا رکن عمل سے متعلق ہے اور وہ ہے جہاد فی سبیل اللہ‘ اپنے اموال اور اپنی جانوں سے. پس ایمانِ حقیقی کے دو ارکان ہوئے‘ ایک ’’یقین‘‘ جو قلب میں ہو گا اور دوسرا ’’جہاد‘‘ جو عمل میں ہو گا.

یہاں ایک نکتہ مزید سمجھ لیجیے. ایمان مجمل کے الفاظ ہیں:

آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ

ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ ایمان کے دو پہلو یا دو درجے ہیں. ایک زبان سے اقرار اور دوسرا دل سے تصدیق یا قلبی یقین. اب ان میں سے پہلا درجہ یعنی اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ ایمانِ قانونی یا اسلام کا رکن ہے شَھَادَۃُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلَ اللّٰہِ . یہ تصدیق ہے‘ testimony ہے. ایک شخص زبان سے اقرار کرے کہ میں مانتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور تسلیم کرے کہ حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں‘ تو اس اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ کی حیثیت اسلام کے رکن کی ہو گی جبکہ تصدیق بالقلب ایمانِ حقیقی کا رکن ہو گا. (۱) مسلم کتاب الایمان، باب ارکان الاسلام و دعائمہ العظام ایمانِ حقیقی کے دو ارکان میں سے پہلے رکن یعنی یقین قلبی پر پہلے بھی گفتگو ہو چکی ہے کہ اس کے کیا آثار ہیں! یقین موجود ہے تو اس کے کیا نتائج و ثمرات انسان کے عمل میں ظہور پذیر ہوں گے! ان امور کا ہم سورۃ التغابن میں تفصیل سے مطالعہ کر چکے ہیں. لہذا اب ہمیں گفتگو کو زیادہ مرتکز کرنا ہو گا دوسرے رکن یعنی جہاد فی سبیل اللہ کے موضوع پر. یہ تو معلوم ہو گیا کہ یہ رکن ہے ایمانِ حقیقی کا‘ یعنی اگر یہ موجود ہے تو حقیقی ایمان موجود ہے اور اگر یہ نہیں ہے تو ایمانِ حقیقی حاصل نہیں ہے.