قُلۡ اَتُعَلِّمُوۡنَ اللّٰہَ بِدِیۡنِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۶﴾یَمُنُّوۡنَ عَلَیۡکَ اَنۡ اَسۡلَمُوۡا ؕ قُلۡ لَّا تَمُنُّوۡا عَلَیَّ اِسۡلَامَکُمۡ ۚ بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ ہَدٰىکُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۷﴾اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ غَیۡبَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿٪۱۸﴾ .... صدق اللّٰہ العظیم 
’’کہیے! کیا تم اللہ پر جتلانا چاہتے ہو اپنا دین‘ حالانکہ اللہ تو جانتا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں‘ اور اللہ تو ہر شے کا علم رکھتا ہے. وہ آپ پر احسان دھر رہے ہیں کہ وہ اسلام لے آئے. کہیے: مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ دھرو‘ بلکہ اللہ تم پر احسان جتلاتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی راہ سجھائی اگر تم فی الواقع سچے ہو .یقینا آسمانوں اور زمین کی ہر چھپی چیز اللہ کے علم میں ہے‘ اور اللہ دیکھ رہا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو‘‘.

فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والوں میں زیادہ تعداد اعراب یعنی بدّوؤں کی تھی. ان میں سے 
اکثر کی کیفیت ایک علاقائی محاورے ’’تھوتھا چنا باجے گھنا‘‘ یعنی ’’خالی برتن زیادہ کھڑکتا ہے‘‘ کے مصداق تھی. چنانچہ جن کے دل میں ایمان نہیں تھا وہ کچھ زیادہ ہی بڑھ چڑھ کر اپنے ایمان و اسلام کا اظہار کرتے اور آنحضور پر احسان جتاتے تھے. خاص طور پر وہ لوگ جو لڑے بھڑے بغیر ایمان لے آئے تھے اضافی حقوق کا مطالبہ کرتے کہ دیکھئے حضورؐ ! نہ تو ہم نے آپ سے جنگ کی‘ نہ کبھی آپ کی مخالفت کی بلکہ ہم پُرامن طور پر اسلام لے آئے‘ لہذا ہمارا حق دوسروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہے. ہمیں صدقات میں سے بھی حصہ ملنا چاہیے اور ہماری رعایت زیادہ ہونی چاہیے. اس آیت میں انہی زیادہ بڑھ چڑھ کر باتیں بنانے والوں کے بارے میں قدرے سرزنش کے انداز میں فرمایا: قُلۡ اَتُعَلِّمُوۡنَ اللّٰہَ بِدِیۡنِکُمۡ ؕ کہ اے نبیؐ ! ‘آپ ان سے پوچھیے کہ تم کس کو بتانا چاہتے ہو کہ تم اسلام لے آئے ہو؟ کیا تم اللہ کو اپنے دین و ایمان کی اطلاع دینا چاہتے ہو؟ اسے جتلانا چاہتے ہو کہ تم ایمان لے آئے ہو! وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ ’’حالانکہ اللہ تو جانتا ہے جو کچھ کہ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے‘‘. اگر تمہارے دل میں ایمان ہے‘ اگر تم واقعی صاحبِ ایمان ہو تو کیا کوئی چیز اللہ کی نگاہوں سے پوشیدہ اور اس کے علم سے باہر ہو سکتی ہے! وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۶﴾ ’’اللہ تو ہر شے کا جاننے والا ہے‘‘. اس کا علم ہر شے کو محیط ہے.

اصل میں وہ اپنے ایمان کا احسان رسول اللہ پر دھرتے تھے. چنانچہ فرمایا : 
یَمُنُّوۡنَ عَلَیۡکَ اَنۡ اَسۡلَمُوۡا ؕ ’’اے نبی! یہ آپ پر احسان دھر رہے ہیں کہ یہ اسلام لے آئے ہیں‘‘. چونکہ صدقات کی تقسیم کا معاملہ آپؐ کے ہاتھ میں تھا‘ لہذا اپنے اسلام لانے کا احسان آپؐ پر دھرتے تھے تاکہ صدقات و خیرات میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ مل سکے!

نوٹ کیجیے‘ یہاں ایمان اور اسلام کو پھر الگ اصطلاحات کی شکل میں لایا جا رہا ہے اور اس اعتبار سے یہ مقام پورے قرآن مجید میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے کہ اسلام اور ایمان کو علیحدہ علیحدہ بھی کیا گیا لیکن اس آیت میں ان دونوں کے ربط کو بڑی خوبصورتی سے واضح بھی کیا جا رہا ہے. چنانچہ آیت کے پہلے حصے میں اسلام کا آنحضور پر احسان جتانے کے حوالے سے ان کے طرزِ عمل پر گرفت فرمانے کے بعد کہ : 
یَمُنُّوۡنَ عَلَیۡکَ اَنۡ اَسۡلَمُوۡا ؕ قُلۡ لَّا تَمُنُّوۡا عَلَیَّ اِسۡلَامَکُمۡ ۚ بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ ہَدٰىکُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۷﴾ ’’بلکہ اللہ تم پر احسان دھرتا ہے (اس کا احسان مانو) کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھا دیا ہے اگر تم (اپنے دعوائے اسلام میں) سچے ہو‘‘. یعنی ایک تو وہ لوگ تھے جنہوں نے دھوکہ دینے کی نیت سے کلمہ پڑھا‘ یہاں ان کی بات نہیں ہو رہی‘ اگر تم نے دھوکے کی نیت کے بغیر اسلام کا کلمہ زبان سے ادا کیا ہے تو گویا کہ اللہ کا احسان مانو کہ تمہیں اللہ اس راستے پر لے آیا ہے کہ جس کی اگلی منزل ایمان ہے. اب تم ایمان تک پہنچ سکتے ہو‘ اس تک رسائی حاصل کر سکتے ہو. اس لیے کہ جو شخص اس سڑک پر آ گیا اب گویا کہ اس کے لیے آسان ہے کہ وہ ایمان کی منزل تک رسائی حاصل کر لے. ’’ہدایت‘‘ کے مختلف درجات کو ذہن میں رکھیے کہ راہ دکھا دینا بھی ہدایت کا ابتدائی درجہ ہے اور راہ پر لے آنا بھی ہدایت ہی کا اگلا درجہ ہے. یہاں دونوں اعتبارات سے ترجمہ کیا جا سکتا ہے : بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ ہَدٰىکُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۷﴾ ’’کہ رسولؐ پر اپنے ایمان و اسلام کا احسان دھرنے کی بجائے اللہ کا احسان مانو کہ اس نے تمہیں ایمان کی راہ پر ڈال دیا‘ اگر تم فی الواقع اپنے دعوائے اسلام میں سچے ہو‘‘. بقول شاعر ؎

’’منّت منہ کہ خدمتِ سلطاں ہمی کنی
منّت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت‘‘

یہاں نوٹ کیجیے کہ پہلے لفظ ’’اسلام‘‘ کے حوالے سے گفتگو ہے: یَمُنُّوۡنَ عَلَیۡکَ اَنۡ اَسۡلَمُوۡا ؕ قُلۡ لَّا تَمُنُّوۡا عَلَیَّ اِسۡلَامَکُمۡ اور پھر بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ ہَدٰىکُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۷﴾ میں ایمان کی راہ پر ڈالنے کا ذکر اللہ تعالیٰ کے احسان کے طور پر کیا گیا ہے. اس طرح ’’اسلام‘‘ اور ’’ایمان‘‘ کو دو علیحدہ علیحدہ اصطلاحات کے طور پر بیان کر کے ان کے باہمی ربط کو بھی واضح فرما دیا ہے.

آگے چلیے‘ فرمایا: 
اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ غَیۡبَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یہ اس سورۂ مبارکہ کی اختتامی (concluding) آیت ہے. ’’اللہ تعالیٰ تو آسمانوں اور زمین کی ہر چھپی شے کا جاننے والا ہے‘‘. وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿٪۱۸﴾ ’’اور اللہ دیکھ رہا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو‘‘. اس میں ایک طرح کی دھمکی بھی مضمر ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں تمہارے اعمال کو‘ تمہارے سارے کرتوت ہماری نگاہ میں ہیں. اس کے ساتھ ساتھ مخلص اہل ایمان کے لیے تسلی کا سامان بھی ہے کہ تمہاری قربانیاں‘ تمہارا ایثار اور تمہارے اعمالِ صالحہ سب ہماری نگاہ میں ہیں‘ ہم ان سب سے بے خبر نہیں ہیں. جیسا کہ آنحضور سے تسلی آمیز انداز میں فرمایا گیا: فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا ’’اے نبی‘ آپ ہماری نگاہوں میں ہیں‘‘. اس اعتبار سے ہر صاحبِ ایمان کے لیے یہ الفاظ گویا کہ ہمت افزائی کا موجب ہیں کہ : وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿٪۱۸﴾ لیکن جن کے دلوں میں روگ ہے ان کے لیے یہی الفاظ کلمۂ تہدید کا درجہ رکھتے ہیں. یہ دھمکی آمیز الفاظ ہیں کہ’’ اللہ جانتا ہے جو کچھ کہ تم کر ررہے ہو‘‘.

اللہ تعالیٰ ہمیں ایمانِ حقیقی سے بہرہ اندوز فرمائے اور اس کے جو اضافی ارکان ہیں‘ ارکان اسلام پر مستزاد‘ یعنی یقین قلبی اور جہاد فی سبیل اللہ‘ ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے. 


وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمینoo