عرضِ ناشر

کیوں ذلیل…؟‘‘ کے تذکرے سے شروع ہونے والے یہ مضامین دراصل محترم ڈاکٹر صاحب کے خطبہ عیدالفطر کی تفصیل و تشریح کی حیثیت رکھتے ہیں. اس سال یہ خطبہ غیر معمولی طو رپر طویل ہی نہیں‘ غیر معمولی اہمیت کا حامل بھی تھا اور اس کا عنوان تھا: ’’اُمت مسلمہ پر عذابِ الٰہی کے سائے‘ مسیح دجال کی آمد آمد اور مسلمانانِ پاکستان کی ذِمہ داریاں!‘‘ عیدالفطر سے متصلاً قبل محترم ڈاکٹر صاحب بیرونِ ملک سفر سے واپس تشریف لائے تھے اور اُن کے اس سفر میں امریکہ‘ فرانس اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کا مختصر دورہ بھی شامل تھا. چنانچہ اس سفر کے مشاہدات و تأثرات کا ایک عکس بھی ان کی زیر نظر تقریر و تحریر میں جھلکتا دکھائی دیتا ہے. 

بین الاقوامی حالات جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں اور تاریخ جس برق رفتاری سے کروٹیں بدلنے لگی ہے‘ اس کے پیش نظر ملک و ملت کا در د رکھنے والا ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اُمت مسلمہ اور اسلام کا مستقبل کیا ہو گا! بادی ٔالنظر میں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ اسلام مخالف تمام قوتیں اب واحد سپر پاور امریکہ‘ جسے ایک اعتبار سے ’’سپریم پاور‘‘ کہنا بھی غلط نہ ہوگا‘ کے جھنڈے تلے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف متحد ہو چکی ہیں‘ اور ستم ظریفی یہ کہ قوت و طاقت کے نشے میں سرشار اس سپر پاور کے سر پر ’’یہودی‘‘ سوار ہے جس کی مسلمان دشمنی محتاجِ بیان نہیں. اس تناظر میں صاف نظر آتا ہے کہ اُمت کا مستقبل نہایت تاریک ہے اور شدید اندیشہ ہے کہ دجالی فتنے کا یہ سیلاب مسلمانوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا. لیکن ہمارے لیے اصل غور طلب بات یہ ہے کہ کیا اس تاریکی کے بعد کسی روشن صبح کے نمودار ہونے کا امکان ہے یا نہیں؟ کیا یہ شب تاریک کبھی جلوۂ خورشید سے گریزاں ہو سکے گی اور کیا کرۂ ارضی ایک بار پھر نغمۂ توحید سے معمور ہو سکے گا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آیا ہمارے لیے یہ طرزِ عمل کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ‘رہیں‘ کسی طور مناسب ہے؟ یا موجودہ حالات اور مستقبل کے حوالے سے ہم پر کوئی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے؟ ان سوالا ت کا بڑا مفصل جواب محترم ڈاکٹر صاحب کی ان تحریروں میں موجود ہے. یہ مضامین دراصل سابقہ اور موجودہ مسلمان اُمتوں‘ یعنی یہود اور اُمت مسلمہ کے ماضی‘ حال اور مستقبل کے ضمن میں محترم ڈاکٹر صاحب کے افکار پر مشتمل ہیں. چنانچہ ان کے آئینۂ افکار میں‘ جو قرآن وحدیث کے نصوص پر مشتمل ہے‘ قارئین کو نہ صرف یہ کہ ماضی اور حال کا صحیح شعور و ادراک حاصل ہوتا ہے بلکہ آنے والے دَور کی ایک واضح تصویر بھی نظر آتی ہے. قارئین محسوس کریں گے کہ فکری و نظری گہرائی کے حامل ان مضامین میں جہاں جا بجا دقیق عالمانہ نکات موجود ہیں ‘وہاں عملی رہنمائی کا بھی وافر سامان موجود ہے. 

اس کتاب میں شامل بعض مباحث اس سے قبل ’’تنظیم اسلامی کا تاریخی پس منظر‘‘ نامی کتابچے میں بھی شامل تھے‘ لیکن اِس کتاب کے مخصوص سیاق و سباق میں ان کا شائع کرنا ضروری تھا. ویسے بھی اُس تحریر اور اس زیر نظر کتاب کے درمیان کم و بیش بیس سال کا فصل ہے‘ چنانچہ اس طویل فصل زمانی کے پیش نظر اِن میں بعض نئے پہلو بھی شامل کر دیے گئے ہیں جو یقینا قارئین کی دلچسپی کا موجب ہوں گے.

ناظم نشر و اشاعت
مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور

اکتوبر۱۹۹۳ء 
پ . ن : طبع نہم (دسمبر2008ء) کے موقع پر اس کتاب کو نئی کمپیوٹر کمپوزنگ کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے. نیز کتاب کے آخر میں دی گئی احادیث کے ساتھ اردو ترجمہ بھی شامل کر دیا گیا ہے.