ہیں آج کیوں ذلیل…؟ 

۲۲ جنوری ۱۹۹۳ء کو نیو جرسی سٹیٹ کے صنعتی شہر ٹرینٹن میں خطابِ جمعہ کے لیے ذہن تانا بانا بننے میں مصروف تھا کہ اچانک بجلی کوندنے کے سے انداز میں یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ ہم سورۃ البقرۃ کی آیت ۶۱ میں وارد شدہ الفاظ 
ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ ’’اُن پر ذلت اور مسکنت تھوپ دی گئی‘ اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے!‘‘ کو پڑھتے ہوئے اطمینان سے گزر جاتے ہیں‘ اس لیے کہ یہ الفاظ یہودیوں کے بارے میں وارد ہوئے ہیں‘ لیکن اگر موجودہ حالات کا معروضی مطالعہ کیا جائے تو اِس و قت اِن الفاظِ قرآنی کے مصداقِ کامل مسلمان ہیں نہ کہ یہود! (واضح رہے کہ ذرا سی تقدیم و تأخیر کے ساتھ یہ مضمون سورۂ آل عمران کی آیت ۱۱۲ میں بھی وارد ہوا ہے). (۱اسی طرح سورۃ الفاتحہ کی آخری آیت کی تفسیر کے ضمن میں اس امر پر مفسرین کا تقریباً اجماع ہے کہ ’’ۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِم‘‘ کی عملی تفسیر یہود ہیں اور ’’ضَآلِّیۡن‘‘ کے مصداق نصاریٰ ہیں‘ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ اگرچہ مؤخر الذکر یعنی عیسائیوں کا گمراہ ہونا تو یقینا اب بھی صدفی صد درست ہے‘ لیکن ’’مَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْۡ‘‘ کی عملی تفسیر تو اِس وقت یہود نہیں‘ مسلمان ہیں.

ذرا غور فرمایئے کہ یہودی اِس وقت پوری دنیا میں کل چودہ ملین یعنی لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ ہیں‘ جب کہ مسلمانوں کی تعداد کم از کم تیرہ سو ملین یعنی ایک ارب تیس کروڑ ہے. گویا مسلمان یہودیوں سے تعداد میں تقریباً سو گنا زیادہ ہیں. اس کے باوجود اِس وقت کرۂ ارضی کی سیاسی قسمت بالفعل یہود کے ہاتھ میں ہے‘ اس لیے کہ وہ علامہ اقبال (۱) ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ اَیۡنَ مَا ثُقِفُوۡۤا اِلَّا بِحَبۡلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبۡلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡمَسۡکَنَۃُ ؕ کے قول ؏ ’’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!‘‘کے مصداق وقت کی ’’واحد سپریم پاور‘‘ یعنی ریاست ہائے امریکہ کی سیاست‘ معیشت اور ثقافت‘ سب پر پوری طرح قابض اور قابو یافتہ ہیں‘ اور امریکہ کا صدر ہو یا سینٹ‘ اور کانگریس ہو یا پینٹا گون‘ سب ان کے اثر و رسوخ اور بالخصوص ذرائع ابلاغ پر ان کے کنٹرول کے آگے بے بس ہیں. دوسری طرف سونے چاندی کی بجائے کاغذی کرنسی کے رواج اور بینک‘ انشورنس اور اسٹاک ایکسچینج کے شیطانی جال پر تسلط کے ذریعے اِس وقت دنیا کی دولت کے بڑے حصے پر یہود کا قبضہ ہے. چنانچہ ایک جانب ان میں سے بیسیوں افراد ایسے موجود ہیں جو کئی کئی بلین ڈالر کا ایک ایک چیک جاری کر سکتے ہیں تو دوسری جانب عالمی اقتصادیات کا لیور یا ہینڈل ان کے ہاتھ میں ہے کہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں مالی بحران پید اکر کے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کو ریزہ ریزہ کر دیں. (سوویت یونین کا یہ حشر تو سامنے کی بات ہے ہی‘ جیسے ہی صیہونیوں نے محسوس کیا کہ امریکہ ان کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے‘ وہ آناً فاناً یہی معاملہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں‘ اور غالباً وہ وقت اب زیادہ دور بھی نہیں ہے. واللہ اعلم!)

یہود کا یہ سیاسی اور معاشی اثر و نفوذ تو ذرا پس پردہ اور عام لوگوں کی نگاہوں سے مخفی ہے‘ لیکن اُمت مسلمہ سے تقابل کے اعتبار سے یہ حقیقت تو اظہر من الشمس ہی ہے کہ عالم اسلام‘ خصوصاً عالم عرب کے سینے میں اسرائیل کا خنجر بالفعل پیوست ہے. (واضح رہے کہ دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ گولان کی سطح مرتفع اور غزہ کی پٹی سے قطع نظر‘ جس پر ۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل قابض ہوا‘ ۱۹۴۸ء میں جو ابتدائی اسرائیل وجود میں آیا تھا اس کی صورت واقعتا بالکل خنجر کی سی ہے!) اس پر مستزادیہ کہ دیکھنے والی نگاہیں دیکھ رہی ہیں کہ ’’وسیع تر اسرائیل‘‘ بھی بالقوہ وجود میں آ چکا ہے‘ اس لیے کہ دنیائے اسلام بالخصوص عالم عرب میں کوئی طاقت ایسی موجود نہیں ہے جو اِس کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو سکے! (یہ بالکل دوسری بات ہے کہ صیہونیوں کی اپنی حکمت عملی ابھی اپنے آخری اقدام کے ضمن میں قدرے تأخیر کی متقاضی ہو!). اس کے بالکل برعکس صورت حال مسلمانوں کی ہے کہ تعداد میں سوا ارب سے زائد ہونے کے باوجود ؏ ’’کس نمی پر سد کہ بھیا کیستی‘‘ کے مصداق بین الاقوامی سطح پر ان کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں. سارے عالمی معاملات G-7یا زیادہ سے زیادہ G-15طے کرتے ہیں‘ اور بین الاقوامی مسائل میں سارے اقدامات کا فیصلہ یو این او اور اس کی سیکیورٹی کونسل کے پردے میں صرف امریکہ اور اس کے چند حواری (بالخصوص انگلستان اور فرانس) کرتے ہیں. ہمارے بڑے بڑے ملکوں اور بڑی شان و شوکت کی حامل حکومتوں کے جملہ معاملات بھی کہیں اور طے ہوتے ہیں‘ ہماری داخلی اور خارجی حکمت عملی کہیں اور بنتی ہے‘ یہاں تک کہ ملکی بجٹ اور ٹیکسوں کے ضمن میں ’’ہدایات‘‘ باہرسے آتی ہیں. مزید برآں ہمارے وسائل پر بالفعل اغیار کا قبضہ ہے اور ہمارے دولت‘مند ترین ملکوں کی تمام تر دولت بھی اصلاً غیروں کے دست اختیار میں ہے کہ اگرذرا ان کی مرضی کے خلاف ادنیٰ جنبش بھی کریں تو چشم زدن میں ان کی کل دولت اورسرمایہ ’’منجمد‘‘ کر کے گویا صفر بنا کر رکھ دیں. الغرض ہماری کیفیت اس وقت بالکل وہی ہے جس کا نقشہ نبی اکرم نے اپنی ایک حدیث مبارک (رواہ احمد و ابوداؤد عن ثوبانؓ ) میں کھینچا تھا کہ ’’مجھے اندیشہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ نہایت کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود تمہاری حیثیت سیلاب کے ریلے کے اوپر کے جھاگ سے زیادہ نہیں رہے گی.‘‘ (۱)

ان ’’لطیف‘‘ حقائق پر مستزادیہ تلخ واقعات تو نگاہوں کے عین سامنے موجود ہیں کہ مغرب ہو یا مشرق‘ اِس وقت ساری دنیا میں مسلمان شدید ترین مصائب و آلام سے دو چار ہیں. چنانچہ مشرق میں بھارت اور کشمیر اور مغرب میں بوسنیا ہر زیگووینا تو بالفعل ؏ ’’ہو گیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کالہو‘‘ کا نقشہ پیش کر رہے ہیں‘ باقی عالم اسلام بھی یا توافغانستان اور تاجکستان کی طرح خانہ جنگی کے عذاب میں مبتلا ہے یا سورۃ النحل کی آیت ۱۱۲ میں وارد شدہ الفاظ ’’لِبَاسَ الۡجُوۡعِ وَ الۡخَوۡفِ‘‘ کے مطابق بھوک اور خوف کے لباس میں ملبوس نظر آتا ہے‘ او رجہاں بظاہر اِن دونوں میں سے کوئی صورت موجود (۱) احادیث کا مکمل متن اور ترجمہ کتاب کے آخر میں دیے گئے ’’ضمیمہ‘‘ میں ملاحظہ فرمایئے! نہیں ہے‘ بلکہ دولت کی ریل پیل اور عمارتوں کی شان و شوکت یورپ ہی نہیں امریکہ کا مقابلہ کرتی نظر آتی ہے ‘وہاں بھی ’’ذلت و مسکنت‘‘ کی یہ صورت بتمام و کمال موجود ہے کہ بین الاقوامی سطح پر نہ عزت ہے نہ وقار‘ اور خود داخلی سطح پر بھی حقیقی آزادی حاصل ہے نہ واقعی اختیار. چنانچہ ایک جانب ’’ذلت‘‘ کی انتہا یہ ہے کہ مغرب کے اخبارات وجرائد میں ان دولت مند ترین مسلمانوں کا تذکرہ بالعموم تمسخر اور استہزاء کے ساتھ ہوتا ہے‘ تو دوسری جانب ’’مسکنت‘‘ اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ بھارت میں بابری مسجد کے گرائے جانے پر پچاس سے زائد نام نہاد مسلمان حکومتوں میں سے کسی ایک کو بھی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ بھارت کی حکومت سے یہ ہی کہہ سکتی کہ اگر مسجد فی الفور دوبارہ تعمیر نہ کی گئی تو ہم سفارتی یا اس سے بھی کم تر درجہ میں تجارتی تعلقات منقطع کر لیں گے. گویا عزت و وقار کے ساتھ ساتھ غیرتِ ملی کا جنازہ بھی نکل چکا ہے اور سوا ارب سے زیادہ افراد پر مشتمل عالمی ملت اسلامیہ اس وقت بالفعل ؏ ’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘ کا نقشہ پیش کر رہی ہے‘ تو سوچئے کہ الفاظِ قرآنی ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ یعنی ’’ان پر ذلّت اور مسکنت مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے‘‘ کے مصداق اِس وقت ہم نام نہاد مسلمان ہیں یا یہود؟

آگے بڑھنے سے قبل اس خیال کے تحت کہ مبادا مایوسی اور بددلی کے سائے زیادہ گہرے ہو جائیں‘ اور مبادا کسی کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہو جائے کہ قرآن کے بیان میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہے‘ یہ حقیقت بیان کر دینی ضروری ہے کہ موجودہ صورتِ حال مستقل نہیں عارضی ہے ‘اور مستقبل میں بالکل برعکس ہو جائے گی. چنانچہ قرآن حکیم میں قوموں او راُمتوں کے عروج و زوال کے جو اصول اور عذابِ الٰہی کا جو فلسفہ بیان ہوا ہے اور اس پر مستزاد احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں قربِ قیامت کے جو حالات و واقعات اور یہودو نصاریٰ اور مسلمانوں کے مابین آخری آویزش اور معرکہ آرائی کے ضمن میں جو پیشین گوئیاں وارد ہوئی ہیں‘ ان کے مطابق یہود پر بہت جلد ’’عذابِ استیصال‘‘ یعنی جڑ سے اکھیڑ پھینکنے والا عذاب نازل ہو گا(اس اصطلاح کی 
وضاحت بعد میں ہو گی)‘ اور وہ ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ جس کے خواب وہ عرصے سے دیکھ رہے ہیں‘ اگرچہ ایک بار قائم تو ہو جائے گا لیکن بالآخر وہی ان کا عظیم تر اجتماعی قبرستان بنے گا. دوسری جانب پورے کرۂ ارضی پر بالآخر اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی حکومت قائم ہو گی اور اللہ کے دین کا بول بالا ہو گا. گویا موجودہ نیو ورلڈ آرڈر‘ جو درحقیقت جیوورلڈ آرڈر (یعنی یہودیوں کی بالا دستی کا عالمی نظام) ہے‘ بالآخر اسلام کے ’’جسٹ ورلڈ آرڈر‘‘ (Just World Order) یعنی خلافت علیٰ منہاج النبوت کے عدل و قسط پر مبنی عالمی نظام میں تبدیل ہو کر رہے گا. چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  نے فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ فَرَاَیْتُ مَشَارِقَھَا وَمَغَارِبَھَا‘ وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِیَ لِیْ مِنْھَا
’’اللہ نے مجھے پوری زمین کو لپیٹ کر (یا سکیڑکر) دکھا دیا. چنانچہ میں نے اس کے سارے مشرق بھی دیکھ لیے اور تمام مغرب بھی. اور یقین رکھو کہ میری اُمت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہو کر رہے گی جو مجھے لپیٹ کر (یا سکیڑ کر) دکھائے گئے.‘‘

اسی طرح مسند احمدبن حنبل میں حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

لاَ یَبْقٰی عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَّلاَ وَبَرٍ اِلاَّ اَدْخَلَہُ اللّٰہُ کَلِمَۃَ الْاِسْلَامِ بِعِزِّ عَزِیْزٍ وَذُلِّ ذَلِیْلٍ‘ اِمَّا یُعِزُّھُمُ اللّٰہُ فَیَجْعَلُھُمْ مِّنْ اَھْلِھَا اَوْ یُذِلُّھُمْ فَیَدِیْنُوْنَ لَھَا
’’روئے زمین پر نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر باقی رہے گا نہ کمبلوں کا بنا ہوا خیمہ جس میں اللہ اسلام کو داخل نہیں کر دے گا‘ خواہ عزت والے کے اعزاز کے ساتھ خواہ کسی مغلوب کی مغلوبیت کی صورت میں.( یعنی) یا لوگ اسلام قبول کر کے خودبھی عزت کے مستحق بن جائیں گے یا اسلام کی بالادستی تسلیم کر کے اس کی فرماں برداری قبول کرنے پرمجبور ہو جائیں گے.‘‘ لہذا ہم الصادق والمصدوق  کے فرمودات پر یقین کی بنا پر ایک جانب موجودہ عالمی نظام کے سربراہوں‘ یعنی یہود اور نصاریٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ : ؎

’’اور بھی دَورِ فلک ہیں ابھی آنے والے
ناز اتنا نہ کریں ہم کو ستانے والے!‘‘

اور دوسری جانب معروضی حالات کے مطالعے اور مشاہدے کے باعث جب اُمید کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا محسوس ہو اور مایوسی کے سائے زیادہ گہرے ہونے لگیں تو ؎

’’سنبھلنے دے مجھے اے ناامیدی کیا قیامت ہے

کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے!‘‘
اور ؎
’’نہ ہو نومید‘ نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امید مردِ مؤمن ہے خدا کے راز دانوں میں!‘‘

کے مصداق ’’دامانِ خیالِ یار‘‘ کی طرح دامن امید پر اپنی گرفت از سر نو مضبوط کر سکتے ہیں لیکن علامہ اقبال کے اس شعر کے مطابق کہ ؎
’’مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار
ہر زماں پیش نظر لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَاد دار!‘‘

اس آخری اُمید سے اپنے سینے کو آباد رکھنے کے ساتھ ساتھ دو اسباب کی بنا پر لازم ہے کہ ہم ان سوالات کے جواب قرآن کے فلسفہ و حکمت کی روشنی میں تلاش کریں کہ اس‘وقت ؎
’’ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی ٔٔ فرشتہ ہماری جناب میں!‘‘

کے مصداقِ کامل ہم مسلمان ہی کیوں بن گئے ہیں اور اس کا کیا سبب ہے کہ ؎
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر!

اس لیے کہ ایک عام سادہ لوح مسلمان کی سوچ تو لا محالہ یہ ہے کہ ہم خواہ اَفعال و اَعمال اور اَخلاق و کردار کے اعتبار سے کتنی ہی پستی میں گر چکے ہوں‘ بہرحال کلمہ گو اور خاتم النبیین اور سید المرسلین کے اُمتی ہیں اور ’’توحید کی امانت‘‘ کے حامل اور ؏ ’’ہر کہ عشق مصطفی ؐ سامانِ اوست‘‘ کے کسی نہ کسی درجے میں مدعی ہیں‘ جبکہ یہود و نصاریٰ اور بقیہ جملہ اقوامِ عالم کھلم کھلا کافر و مشرک اور اللہ اور اس کے رسولؐ ‘ کی صاف منکر و مخالف ہیں‘ اور قرآن مجید میں بار بار فرمایا گیا ہے کہ ’’اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا.‘‘
ان سوالات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں سنجیدگی سے غور اِن اسباب کی بنا پر لازمی ہے کہ:

(۱) جیسے قرآنِ مجیدمیں بار بار نبی اکرم  سے کہلوایا گیا کہ ’’لوگو! جس بات کی تمہیں خبر دی جا رہی ہے یا جس عذاب کی وعید سنائی جا رہی ہے‘ میں نہیں جانتا کہ وہ قریب ہے یا ابھی کچھ دور ہے‘‘. (جیسے مثلاً سورۃ الانبیاء کی آیت ۱۰۹ میں اور سورۃ الجن کی آیت ۲۵ میں) اسی طرح نہیں کہا جا سکتا کہ عذابِ استیصال کے ذریعے یہود کے خاتمے اور عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے غلبے کا ’’انقلابِ عظیم‘‘ قریب آ چکا ہے یا ابھی کچھ دیر تک موجودہ صورت ہی برقرار رہے گی. بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر چونکہ احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ہی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ؏ ’’اور کچھ روز فضاؤں سے لہو برسے گا‘‘ کے مصداق ابھی موجودہ صورتِ حال مزید گھمبیر ہو گی اور اُمت مسلمہ پر عذابِ الٰہی کے مزید اور شدید تر کوڑے برسیں گے‘ لہذا ضروری ہے کہ موجودہ صورتِ حال کے اسباب اور قرآن کے فلسفۂ عذاب کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے‘ تاکہ سورۃ الشوریٰ کی آیت ۳۰ 
وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ’’اور جو مصیبت بھی تم پر نازل ہوتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کے باعث ہوتی ہے‘ اور اللہ بہت سی کوتاہیوں سے تو درگزر بھی کرتا رہتا ہے!‘‘ کے مطابق یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے کہ یہ حالات و کیفیات ؏ ’’اے بادِ صبا ایں ہمہ آوردۂ تست!‘‘ کے مصداق ہماری اپنی بے عملی ہی نہیں بد اعمالی کا نتیجہ ہیں تاکہ نہ ہم الظَّآنِّیۡنَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السَّوۡءِ ؕ (الفتح : ۶یعنی اللہ سے بدظنی کرنے والوں کے زمرے میں شامل ہوں ‘نہ ہمارے دلوں میں اللہ سے کوئی شکوہ شکایت پیدا ہو‘ بلکہ اپنی خطاؤں کے اعتراف کے ساتھ حقیقی پشیمانی اور خشوع و خضوع اور تضرع واخبات کی کیفیات پید اہوں جو توبہ کی لازمی شرائط ہیں!

(۲)جیسے ہر جسمانی عارضے کے صحیح علاج کے لیے مرض کی صحیح تشخیص لازمی ہے‘ اسی طرح ضروری ہے کہ اُمت کی موجودہ زبوں حالی کے اصل اسباب کا صحیح تعین کیا جائے ‘تاکہ ہماری قوتیں اور توانائیاں اور وقت کی قیمتی متاع سطحی قسم کی تدابیر میں ضائع نہ ہو جائیں‘ بلکہ ہم صورتِ حال کی سنگینی کے صحیح ادراک اور اُمت کے مزمن او رپیچیدہ امراض کے گہرے اسباب و عوامل کا صحیح شعور حاصل کر کے ان کے مداوا اور معالجہ کے لیے صحیح اور مؤثر تدابیر اختیار کر سکیں‘ اور اس تلخ حقیقت کے اعتراف کے ساتھ کہ اس وقت ہم بحیثیت اُمت عذابِ الٰہی کی گرفت میں ہیں ‘اس سے رستگاری کے حصول اور اللہ کے عفو و مغفرت کے دامن میں آنے کے لیے صحیح طریق کار پر عمل پیرا ہو سکیں لہذا اِن شاء اللہ العزیز آئندہ سطور میں ’’قرآن کے فلسفۂ عذاب‘‘ پر کسی قدر وضاحت کے ساتھ گفتگو ہو گی. 
(۱۲؍اپریل ۱۹۹۳ء)