یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ یورپ میں احیاء العلوم کا پورا عمل اسلام ہی کے زیر اثر شروع ہوا ‘اور یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے یورپ کو مشرق و مغرب کے علوم و فنون سے روشناس کرایا. لیکن جیسے ہی یورپ میں بیداری ہوئی اور وہاں قوت کا دباؤ بڑھا‘ گویا عالم اسلام کی شامت آگئی.
یورپ مشرق و مغرب دونوں اطراف سے مسلمانوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا‘ لیکن مشرق میں عذاب کے وعدۂ اولیٰ کے بعد نشأۃِ ثانیہ کا عمل ظاہر ہو چکا تھا اور عظیم سلطنت عثمانیہ عالمِ اسلام کے قلب کے محافظ سنتری کی حیثیت سے کھڑی تھی‘ البتہ مغرب میں اب دولت ہسپانیہ ’’مرنے والی اُمتوں کے عالم پیری‘‘ کا نقشہ پیش کر رہی تھی. لہذا ؏ ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سز امرگِ مفاجات‘‘ کے مصداق یورپی استعمار کا اوّلین شکار وہی بنی اور پندرہویں صدی عیسوی کے دوران اس عظیم سلطنت کا قلع قمع ہو گیا. یہاں تک کہ ۱۴۹۲ء میں سقوطِ غرناطہ کے بعد تو بعینہٖ وہ صورت پیدا ہو گئی جس کا نقشہ قرآن مجید میں عذابِ استیصال کا نوالہ بننے والی قوموں کے بیان میں کھینچا جاتا ہے‘ یعنی:
کَاَنۡ لَّمۡ یَغۡنَوۡا فِیۡہَا ؕ (ھود:۶۸ و ۹۵)
’’جیسے کہ وہ کبھی وہاں آباد ہی نہ تھے‘‘
اور:
لَا یُرٰۤی اِلَّا مَسٰکِنُہُمۡ ؕ (الاحقاف:۲۵)
’’اب ان کے ویران مسکنوں کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا!‘‘
۱۴۹۸ء میں واسکوڈی گاما نے نیا بحری راستہ تلاش کیا اور اس کے فوراً بعد یورپی استعمار کا سیلاب عالم اسلام کے میمنہ پر ٹوٹ پڑا اور انڈونیشیا‘ ملایا اور ہندوستان مختلف یورپی اقوام کے استبدادی پنجوں میں جکڑے گئے‘ اور یہ عمل جس کا آغاز سولہویں صدی عیسوی سے ہوا‘ اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں عالم اسلام کے دائیں بازو کی حد تک اپنے عروج کو پہنچ گیا.
اسی اثناء میں دولت عثمانی بھی اپنے شباب کے دَور سے گزر آئی تھی اور اب اس نے بھی ’’مردِ بیمار‘‘ کی حیثیت اختیار کر لی تھی. گویا عالم اسلام کے قلب میں آٹھ صدیوں کے بعد پھر وہی قوت کا خلا پیدا ہو گیا جو گیارہویں صدی عیسوی میں دولتِ عباسیہ کے اضمحلال کے باعث پیدا ہوا تھا‘ اور قوت کے دبائو کی اس کمی کے باعث مغربی استعمار کا رُخ عالم اسلام کے قلب کی جانب مڑ گیا.
عالم اسلام کے قلب پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے اس دوسرے دَور کا آغاز بیسویں صدی کے شروع میں ہو گیا تھا. چنانچہ پہلی عالمگیر جنگ کے خاتمے پر جب دنیا کا نیا نقشہ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ عظیم دولت عثمانیہ سمٹ سمٹا کر ایشیائے کوچک میں محدود ہو گئی اور شمالی افریقہ سمیت پورا عالم عرب چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں منقسم ہو کر مختلف یورپی اقوام کے براہِ راست زیر نگیں ہو گیا یا بالواسطہ محکومی میں آ گیا اور ہو بہو وہی کیفیت پیدا ہو گئی جس کی خبر مخبر صادق ﷺ نے ان الفاظ میں دی تھی کہ : یُوشِکُ الْاُمَمُ اَن تَداعٰی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الاَ کَلَۃُ اِلٰی قَصْعَتِھا یعنی ’’ایک زمانہ آئے گا کہ اقوامِ عالم ایک دوسرے کو تم پر ٹوٹ پڑنے کی اس طرح دعوت دیں گی جیسے (کسی دعوتِ طعام میں) کھانے والے ایک دوسرے کو دسترخوان کی طرف بلاتے ہیں.‘‘
اس طرح بحیثیت مجموعی اُمتِ مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا دَورِ ثانی اس صدی کے رُبع اوّل میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گیا تھا جب کہ پورا عالم اسلام مغربی استعمار کے ناپاک شکنجے میں جکڑا گیا‘ اگرچہ خاص ’’اُمّیین‘‘ کے حق میں ’’وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ‘‘ کی وہ مکمل صورت جو سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۷ میں بیان ہوئی تھی‘ تقریباً نصف صدی بعد ۱۹۶۷ء میں ظاہر ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ایک مغضوب وملعون قوم کے ہاتھوں ایک شرمناک اور ذلت‘ آمیز شکست دلوائی ‘اور عربوں کے عہد تولیت کے دوران ایک بار پھر مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال ہوئی اوربیت المقدس ان کے ہاتھوں سے نکل کر یہود کے قبضے میں چلا گیا ‘اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس بار یہ قبضہ کتنا طویل ہو گا. اس داستان کا المناک ترین باب یہ ہے کہ مغربی استعمار نے اُمتِ مسلمہ کی وحدتِ ملّی کو پارہ پارہ کر دیا‘ اور اس صدی کے آغاز ہی میں نسلی اور علاقائی عصبیتوں کے وہ بیج مسلمان اقوام کے دلوں میں بو دیے جو ابھی تک برگ و بارلا رہے ہیں. چنانچہ پہلے انہوں نے عربوں کو ترکوں کے خلاف ابھارا‘ نتیجتاً عالم اسلام کا قلب دو لخت ہو گیا اور وحدتِ ملّی کی علامت یعنی خلافت کا بھی خاتمہ ہو گیا. پھر عالم عرب کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں اس طرح تقسیم کیا کہ نسلی اور لسانی اشتراک کے باوجود عالم عرب کے کامل اتحاد کا امکان تا حال دُور دُور تک نظر نہیں آتا.
اسی نسلی تعصب کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے اس عذاب کا مزہ بھی اُمتِ مسلمہ کو چکھنا پڑا جو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا وَّ یُذِیۡقَ بَعۡضَکُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ ؕ (الانعام:۶۵) ’’تمہیں (اللہ تعالیٰ)گروہوں میں تقسیم کر دے اور پھر چکھائے ایک کو دوسرے کی جنگی قوت کا مزہ‘‘. چنانچہ اس صدی کے آغاز میں عربوں کے ہاتھوں ترکوں کا خون بہا اور پھر ۱۹۷۱ء میں بنگالی مسلمان کے ہاتھوں غیر بنگالی مسلمان کے خون کی ہولی اور جان و مال اور عزت و آبرو کی دھجیاں بکھرنے کا منظر چشم فلک نے دیکھا. فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَارِo
۲۸؍ اپریل ۱۹۹۳ء